ایک وقت تھا جب میں ہفتہ میں دودن ایک پروفیسر صاحب کے پاس حصول علم کے لئے جایا کرتا تھا۔ ان سے میں نے کورس کے علاوہ فلسفہ زندگی کے حوالے سےبھی بہت کچھ سیکھا۔ پروفیسر صاحب شعور کے اس مقام پر تھے جہاں پہنچتے پہنچتے عمر اپنے آخری مرحلے میں قدم رکھ چکی ہوتی ہے۔ میں نے ان دنوں اپنی ڈائیری میں کچھ کوٹیشنز Quotations لکھی ہوئی تھیں اور جب بھی ان کے پاس جاتا ان کو ایک کوٹیشن سناتا اوروہ مجھے اس کا ترجمہ ممکنہ تشریح کے ساتھ سکھایا کرتے تھے۔ اسی طرح ایک دن میں نے ان کو چار لفظوں کی ایک خوبصورت کوٹیشن سنائی اور ان سے اس کی تشریح کی درخواست کی۔ میں ان کی تشریح بیان کرنے سے پہلے وہ کوٹیشن بیان کر رہا ہوں۔ "Man proposed، God Disposes. "۔ کوٹیشن سن کر سر اپنے مخصوص دھیمے انداز میں مسکرانے لگے۔ کچھ دیر بعد وہ بولے: "ہم انسان اپنی زندگی کی، اپنے اردگرد موجود لوگوں کی زندگیوں کی بڑی لمبی لمبی منصوبہ بندیاں کرتے رہتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں، جب ہماری عمر 15 سال تک پہنچے گی توہم نے میڑک پاس کر لیا ہو گا، 21 سال تک ایم اے کی ڈگری بھی ہمارے پاس ہوگی اور26 سال تک تو PHD بھی مکمل ہو چکی ہو گی، تب تک کسی اچھی جگہ پر اچھی نوکری بھی مل چکی ہوگی۔ 28 سال کی عمر میں شادی کروں گا۔ 29 سال کی عمر میں بچہ ہو جائے گا، 50 سال تک میرا معاشرے میں اور خاندان میں ایک خاص مقام بن چکا ہو گا، بچے بیس کی حد کو پار کر کے میرے بازو بن چکے ہوں گے، سارے رشتہ دار میرے مقام کی وجہ سے میری عزت کریں گے، معاشرے میں میری کامیابی کی مثالیں دی جائیں گی۔ انسان یہ سب پلاننگ کر رہا ہوتا ہے اور اللہ تعالی مسکر ا کر کہ رہا ہوتا ہے کہ اے انسان تیرے پاس ایک لمحے کی بھی ضمانت نہیں ہے، تجھے اتنا بھی نہیں معلوم کہ تیرے وجود میں چلتی سانس اندر جا کر واپس آئے گی کہ نہیں، تجھے نہیں معلوم کہ تیرا راستہ کون سا ہے اور تو کتنی لمبی لمبی منصوبہ بندیاں کر رہا ہے۔ بالاخر ہونا وہی ہے جس کا میں نے فیصلہ کر رکھا ہے "۔ یہ کہ کر سرسوچوں کے بھنور میں کہیں گم ہو گئے اور میں ان کو اس بھنورمیں ہی چھوڑ کر واپس آگیا۔ اس دن سے جب بھی کوئی میرے سامنے کوئی اس طرح کی منصوبہ بندیاں کرتا ہے تو مجھے یہ کوٹیشن یاد آجاتی ہے اور میں بھی سر کے انداز میں دھیمہ سا مسکر ا کر سوچتا ہوں کہ انسان کی کیا اوقات ہے اور وہ خود کو کیا سمجھ بیٹھتا ہے۔
خواب دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ خواب جو ہم بند آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور دوسرے وہ جو ہم کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ ان دونوں طرح کے خوابوں کا ہمارے ساتھ بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ لیکن بند آنکھوں سے دیکھے گئے خوابوں کی آمد و رفت پر ہمارا اختیار نہیں ہوتا، یہ خواب ہمارے لاشعور میں پوشیدہ ہماری حسرتوں سے متعلق بھی ہو سکتے ہیں یا ان میں ہمارے موجودہ حالات کا عکس بھی ہو سکتا ہے۔ اسی لئے ان خوابوں کی تعبیر کے حوالے سے ہم نے کسی طرح کی کوئی امید نہیں رکھی ہوتی، نہ ہی ان کی تعبیر کے ساتھ ہم نے اپنے جذبوں کو، اپنے احساسات کو نتھی کیا ہوتا ہے۔ لیکن وہ خواب جو ہم کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ان کی تعبیر کا ہمارے ساتھ بہت گہرا تعلق ہوتا ہے، ان کی تعبیر کے ساتھ ہم نے اپنے جذبوں کو، اپنے احساسات کو بہت مضبوطی کے ساتھ باندھا ہوا ہوتاہے۔ کیونکہ کھلی آنکھوں سے دیکھے گئے خوابوں کو ہم بچوں کی طرح پالتے ہیں، بچوں کی طرح ان کی پرورش کر کے ان کو بڑا ہوتے دیکھتے ہیں۔ ان خوابوں میں اپنی مرضی کے خوبصورت رنگ بھرتے ہیں۔ ان خوابوں کو اچھے کپڑے پہناکر ان کو اچھی خوشبو لگا کر ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اس لیے کھلی آنکھوں سے دیکھے گئے خواب اکیلے نہیں ٹوٹا نہیں کرتے یہ اپنے ساتھ ہمیں بھی، نفسیاتی طور پر، جسمانی طورپر اور جذباتی طور پر توڑ دیتے ہیں۔
میں یہ نہیں کہوں گا کہ آپ خواب دیکھنا بند کر دیں، کیونکہ خوابوں کی وجہ سے ہی زندگی کے رنگ مزید واضح اور خوبصورت ہو جاتے ہیں لیکن میں اتناضرور کہوں گا کہ خواب دیکھتے وقت اپنے احساسات کو، اپنے جذبات کو ان خوابوں کے ساتھ نتھی مت کریں، اپنے خوابوں کی غلام گردش میں گم نہ ہو جائیں، اپنے خوابوں کے گرد ہروقت طواف مت کرتے رہا کریں۔ اس کا بہتریں حل یہ ہے کہ جب بھی کھلی آنکھوں سے کوئی خواب دیکھیں تو اوپر دی گئی کوٹیشن کو یادکریں اور اس بات کو اپنے خوابوں کی تعبیر کے ساتھ باندھ لیں کہ ایک راستہ وہ ہوتا ہے جس پر ہمارے خواب ہمیں لے جاتے ہیں اور ایک راستہ وہ ہوتا ہے جس کاتعین اللہ تعالی نے کیا ہوتا ہے اور یقینی بات ہے ہمیں بالاخر اسی راستے پر چلنا پڑتا ہے جو راستہ اللہ تعالی نے ہمارے لئے منتخب کیا ہوتا ہے اور حقیقت میں ہماری اپنی بھلائی بھی اللہ تعالی کے منتخب شدہ راستے سے ہی جڑی ہوتی ہے۔