1. ہوم/
  2. افسانہ/
  3. ڈاکٹر ارشد رضوی/
  4. ایک کہانی کار کے مر جانے کی سرگزشت

ایک کہانی کار کے مر جانے کی سرگزشت

کہانی کار نے مرنے سے پہلے کچھ سوچا ہوگا، وہ ایسا کرتا ہی ہی رہا رہا ہے کہ اسے دو ہی کام آتے تھے یا شاید تین ہاں تین، لیکن یہاں بیان کرنا ضروری نھیں کہ کچھ باتیں بیان کرنے سے کہانی کی ترتیب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتی ہے۔ ہاں یہ بیان کرنا ضروری رھے گا کے اس نے کیا سوچا، شاید کسی کردار کے بارے میں، جو کسی طور لکھا نہ جا سکا ہو، موت سے پہلے کے دنوں میں جب کسی بیماری نے اسے آن لیا تھا جیسے برا وقت آن لیتا ہے۔ ھم لاکھ بچنے کی کوشش کر رھے ہوں لیکن وہ آ کر رھتا ہے کچھ ایسا ہی کہانی کار کے ساتھ ہوا لیکن کچھ بھی ہوا وہ اسی کردار کو یاد کرتا رہا جسے اس نے ایک ننگے صفحے پر لکھنے کی کوشش کی تھی۔ تبھی کسی انجان سی بیماری نے اسے بستر تک محدود کر دیااور دیکھنے والا کوئی نھیں تھا پھر بھی وہ دور سے صفحے دیکھتا رہا جن پر لفظوں کا لبادہ رکھا اس سے باتیں کرتا۔

ایک بار تو ایسا بھی ہوا کہ نامکمل کردار اس کے بستر تک بھی آیا جھاں بدبو دار جسمانی اعضاء مرنے کی تیاری کر رھے تھے اور آنکھوں کے طاقچوں پر استعمال شدہ موم پگھلا رکھا تھا کھانی کار کو لگا کردار اس کی انگلیاں چھو رہا رہا ہے جس کی زرد ہوئی جاتی پوریں کسی سڑے ہوے فضلے سے مشابھہ جمتی جاتی تھیں۔ اصل میں کردار مکمل ہونا چا ھتا تھا اسے شدید خواہش تھی کہ جب اسےکھنےکی کوشش کی گئی تھی، تو مکمل بھی ہو لیکن مکمل نھیں ں ہوا تھا کہ کہ کہانی کار کسی بیماری کا شکار ہوا جو اسکی پوروں، پھر انگلیوں سے اس کے بدن میں پھیلتی گئی اور ایسا لگا سب کچھ دھندلا رہا ہے۔

کردار اسے ایک سنسان سی سڑک پر ملا تھا جب کہا نی کار روز کی طرح چھل قدمی کو نکلا تھا۔ روز کی طرح کا دن تھا، ایک ایسی شکل کا، جو پہلے سے یاد ہو لیکن ایک موڑ پر کچھ مختلف سا، ایسا جیسے کچھ نیا، جو کہانی کار کے ذھن میں پہلے سے نھیں تھا وہ تو روز ہی کی جاتی چھل قدمی پر تھا کہ اسنے اسے دیکھا، ھمیشہ کی طرح، بھتی نھر کے مٹیالے پانی کے ساتھ ساتھ، جو سرخ اینٹوں کی بنی راھداری ہے اسی پر، سست روی سے چلتا، کچھ نکلتا ہوا قد، شانے گرے ہوئے اور کچھ بھاری سے چوتڑ اور چال میں کسی آوارہ عورت کا نازک اور بھاری مٹکتا پن، جو ان عورتوں میں دیکھا جاتا ہے جب وہ کسی اجنبی کو لبھانے کی کوشش کر رھی ہوں۔

کہانی کار اسے عورت ہی سمجھا، کہ لباس میں زنانہ رنگ تھے اور لمبے، لیکن کھردرے بال جو آتے جاتے ہوا کے جھونکھوں سے کچھ بوجھل بوجھل دیکھا ئی دیتے، فضا کو مضمحل کر رھے تھے لیکن قریب سے گزرنے پر لگا وہ کچھ اور ہے، کھیں اندر کوئی عورت ہے لیکن باھر کا جثہ مردانہ اعضاء سے بنا ہے۔ مردانہ اعضاء بھی کچھ ایسے ھیں جیسے عورت کا روپ آتے آتے رہ گیا ہو۔ چھرے کے نقوش میں کھیں کھیں نمک ہے اور رنگ سانولے بادلوں سا جو کل آسمان پر چھاے رھے تھے تبھی ایسا رنگ یاد رہ گیا جب بارش کی امید در آئی تھی لیکن بعد کے حبس نے بےحال کر دیا تھا اور رات بھر سانس لینے کی دشواری رھی تھی۔

کہانی کار آگے گزر ہی جاتا کے اسکی آواز سے چونک گیا اور اس کی طرف متوجہ ہوا پھر ان لفظوں پر جو اس سے کھے گئے تھے، پھر ایک خاص سی بو سے، جو گنہگار لوگوں کے جسموں میں کھیں موجود ہوتی ہے۔ ایسا اسے کچھ عورتوں کے پاس جانے سے علم ہوا تھا کی ان کے بے انتہاء چمکتے جسموں پر کھیں کچھ ایسی بو تھی جو ایسی جگہ پر آن لیتی ہے جھاں بھت سے پرنالوں کا پانی جمع رھتا ہے۔ کچھ ایسی ہی بو اس اچانک سامنے آ جانے والےکردار میں بھی تھی جس کی بات سننے کو وہ رکا تھا۔

جنسی طور پر نامکمل کردار، جس کی آواز میں بھت آسانی سے محروم احساسات کو سنا جا سکتا تھا۔ بس اتنا ہی ہوا اور کہانی کار مخصوص راستوں سے ہوتا اپنے مکان تک آگیا جو اسے سمیٹ لینے کو تیار کھڑا تھا کہ یہ روز کا ہی معمول تھا لیکن اس بار وہ بادرچی خانے کی طرف نھیں گیا بلکہ لکھنے بیٹھ گیا ہاں اسنے سامنے لگی فریم میں قید تصویر کو دیکھا جھاں ایک عورت مسکرا رھی تھی اور آنکھوں کا نیلا رنگ چمکتے ہوئے شیشے سا مزین تھا۔ بھورے بالوں کی جان لیوا کشش چھرے کے پھسلتے گالوں پر آن ٹھری تھی اور ہونٹوں پرسرخ رنگ، خون سا کھلا تھا۔۔

کہانی کار کو فریم میں نظر آتی عورت کی مھک یاد آئی جب شروع کے دن تھے اور ان کی راتیں جو ٹھرے ہوئے پھاڑی راستوں یا جنگلی راہداریوں سی نظر پڑتیں تھیں۔ پھر نجانے کہاں سے کسی تیز بو نے اسکے دلفریب ہوتے جاتے جسم پر بسیرا کر لیا اور شاید نیند میں چلنے کی بیماری اسے ایسے راستے پر لے گئی جھاں سے واپسی ناممکن تھی۔ تصویر میں مھک تھی جسے آنے والے دنوں میں ختم ہونا تھا۔ کہانی کار کچھ اداس ہوا لیکن جلد ہی کاغز کی خاص شکل نے اسے اپنی اور متوجہ کیا۔ میز پر سنسان کاغز رکھے تھے جن پر لکھا جانا تھا کہانی کار نے اس نامکمل کردار کے بارے میں سوچا جو نہر کے کنارے ملا تھا اور اسے مکمل کردار بنانے کے بارے میں سوچنے لگا پھر کاغذ کی عریانی پر سرخ روشنائی میں لکھے لفظ جملوں کی شکل سے ہونے لگے۔ وہ لکھتا رہا شاید کچھ جملے، لیکن ایک جملے کے لکھنے کے بعد اسکے بے انتہا تخلیقی ہنر نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا پھر اسکی پوروں نے کام کرنے سے انکار کیا۔ وہ سمجھا وھم ہے پھر کسی انجان سی شئے نے اسکی آنکھوں پر دھانی سا پردہ ڈال دیا۔ کچھ گھر میں تھا، کوئی بو یا کوئی رینگنے والے کیڑے سے مشابھہ کوئی احساس، جو آھستگی سے اس پر حاو ی ہوا اور وہ خود نامکمل سا، کسی لرزتی دیوار سا ڈھے گیا۔۔

اسنے بے بس سے ختم ہوتے جاتے جسم کو اس وقت زیادہ محسوس کیا جب کردار اس کا حال پوچھنے آیا اور رات کو دن میں تبدیل ہوتے دیکھا۔ میز کی سطح پر کاغز کچھ جملوں کو سنبھالے ایسے لگتے تھے جیسے انتظار میں ہوں اور وہ زنانہ کردار برزخ میں موجود نوحہ کناں تھا۔

کہانی کار کو مرنا تھا کہ جو جسمانی زخم سے، اسکے بدن پر پھیلتے جاتے تھے، بو زدہ تھے، یہ بو سڑتی جاتی دنیا میں اپنی جگہ بناتی ایسی بو تھی جو اسکی جان لینے کے درپے تھی پھر بھی لگتا ہے کہانی کار نے کردار کے بارے سوچا ہوگا کہ اسے مکمل کر لے لیکن اس کا بدن تو گلتا جاتا تھا۔ شاید اس نے کردار سے کچھ کھنا بھی چاھا ہو لیکن وہ سرھانے بیٹھا تھا اور اسے دیکھے جاتا تھا کہانی کار نے اس کی آنکھوں میں زردی سے بھری نا امیدی کو بھی دیکھا۔ تو گویا دونوں ہی آخری سانسیں لے رھے تھے۔

ویسے یہ بھی ممکن تھا کہ کہانی کار نہ مرے اور یونھی اپنے ہی گند میں پڑا رھے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اسے کوئی بچانے نھیں آئے گا کہ جس بستی میں وہ آن چھپا تھا وھاں اسے ایک الگ تھلگ رھنے والے لکھاری کے طور پر جانا جاتا تھا۔ کچھ ہی تو گھر تھے سامنے والے گھر میں جو لوگ تھے وہ بھی دنیا سے بےزار تھے اور دنیا وہ تو کب سے آسمانی آفات کے ھاتھوں ڈری سھمی ہوئی تھی۔ پھر کچھ آفات انسانوں کے ھاتھو ں جگہ جگہ ایسے پیدا کی گیئں تھیں جیسے تل چٹوں کی آفزائش، جنھیں محض رینگنے سے سروکار تھا۔ ہاں بیمار ہونے سے پہلے، کبھی کبھی کھانی کار سگار پینے جب بالکونی تک آیا کرتا تھا ایک سانولی سی لڑکی کو دیکھا کرتا جو عام طور پر اسے دوستانہ اشارے کیا کرتی اور مسکراتی جیسے اسے پہچانتی ہے جب اسے دیکھ کر جینے کی خواھش سر اٹھاتی کہ اس کا جسم کوئی ایسی کہانی سناتا جسے کھانی کار نے نھیں لکھا تھا۔ ویسے بھی اس کے لکھے کرداروں میں بڑی عمر کی عورتیں، کسبیاں، جنگل، اور بے وفا کردار تھے جن سے اسکا واسطہ رہا تھا۔

وہ اسے کبھی لکھے گا، ایسا اس نے خود سے کھا تھا پھر شاید بھول گیا کہ ایک گلتی سڑتی صورتحال نے اسے آن لیا اور کہانی کار یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ وہ مر جائے اور اس کے مرنے سے کردار بھی مر جائے گا، لکھے ہوئے صفحوں کو دیمک چاٹ جائے گی، اور سارا تماشہ ختم ہوگا اسے اس کا بھی غم ہو رہا تھا کہ بیماری نے اچانک سے آکر اسے لکھنے کے قابل نھیں چھوڑا اور بھت سے کردار ادھورے رہ گئے۔ وہ ایسے ہی سوچے جاتا تھا کہ اسے لگا بارش ہو رھی ہے۔ اسے بارشوں سے عشق رہا تھا اسے لگتا آسمان سے جیسے منواء سلواء اترتا ہے۔ موٹی موٹی بوندیں جن میں زندگی چھپی دیکھا کرتی ہے، کیا تم کھڑکی پر پڑے پردے کو ھٹا سکتے ہو۔

اسنے کردار سے کھا جو اب کاغذ پر لکھی آخری سطر پر بیٹھا تھا۔ اس نے کہانی کار کی التجا کو ان سنا کر دیا ہاں اپنا سر نیوڑاے کاغذ کو دیکھے گیا شاید اونگ گیا تھا یا اخری سانسیں لیتا تھا۔ کہانی کار نے آنکھیں موندنے کی کوشش بھی کی اور کچھ یاد کرنے لگا۔ اسے قریبی جنگل یاد آیا، پھر وھی عورت جسکے بدن پر اس نے کھانیاں لکھی تھیں۔ اسے یہ بھی یاد آیا کے گھنے جنگل میں وہ کھیں کھو گئی تھی اور تیز بارش کی آواز سب آوازوں پر حاوی تھی ایسا جب تک ہی ہوا جب تک بارش رک نہ گئی کہ اسے رکنا تو تھا تبھی وہ بھی نظر آی تھی، کسی نامعلوم ہوے جاتے جذبے کی طرح یا پھر کھیں کچھ بھول آئی تھی۔۔

کہاں تھی تم، اس سے پوچھا گیا تھا۔۔

وھاں، وہ ایک کٹیا کی طرف اشارہ کر رھی تھی جس کے ارد گرد بانس کے درخت تھے پھر وہ ھنسی تھی، یہ کچھ ایسی ھنسی تھی جسے پراسرار سی نظر آتی آشیاء سے مماثلت دیئے جانے میں کوئی حرج نھیں۔ بس کچھ اتنا ہی یاد ہے، ہاں وہ دونوں واپس گھر آگئے تھے۔ وہ کسی گہری نیند میں اتر گئی تھی جیسے جس نشے کی خاطر وہ بے چین راتیں گزارتی رھی تھی وہ نشہ اسے میسر آگیا ہو اور وہ کچھ لکھنے لگا تھا، لکھنے کے بعد جب وہ بستر پر آیا تھا تو اس نے ایک خاص بو کو محسوس کیا جو اس کے دلکش بدن سے آ رھی تھی۔ بس اتنا ہی یاد کر سکا تھا کہ بارش کی مخصوص آواز اسے پھر باھر لے گئی۔۔

باھر بارش ہو رھی ہے؟ اس نے پھر پوچھا، پھر اپنی بدنی بو کے بارے سوچنے لگا۔

ایسا اس سے کیا ہوا، جو اس بو نے اسے بھی آن لیا، سرخی مائل سے دھبے جیسے کوئی پیٹ کر گیا ہو۔

اس نے سوچا ایک شام جو خزاں آلود تھی وہ خشک گرے پتوں کو تکلیف دیتا گزرا تھا، اور وہ چیختے تھے، اسے خیال آیا وہ کسبیوں کے علاقے جانے لگا تھا جھاں بھاری جسم کی بدبودار عورت سے اس کی شناسائی ہوگئی تھی۔

اسے یاد آیا ایک رات وہ نئی جگہ نکل گیا تھا اور ایک مکروح جسم اوڑھے درخت کے نیچے سے گزرا تھا اور چمگادڑیں شور مچاتی تھیں۔

اس نے سوچا، لیکن محسوس کیا اسے کچھ بھول بھی رہا رہا ہے پھر بھی ایک آدھ خیال، یا کچھ باتیں، گزرے وقت کا زنگ اٹھائے، کھیں اندر موجود تھیں جیسے ایک رات اس سیاہ بلی کے رونے کی آواز، جس میں بھو ک، نحوست یا شھوت چپھی تھی، تب وہ کہانی لکھنے میں اتنا محو تھا کہ اس نے کوئی پرواہ نہیں کی تھی۔

پھر اسے خیال گزرا کہ جب وہ بو زدہ ہوگئی تھی اور کھیں چلی گئی تھی، وہ اسے تلاش کرنے نھیں گیا تھا اور خالی بستر دیکھ کر دوبارہ سو گیا تھا۔

کچھ ضرور ہوا تھا اور سڑاند پھیلتی جاتی تھی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سڑاند سے علاقے کے لوگ پریشان ہو گئے ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ بھی سڑاند کے تیزاب میں گلنے لگے ہوں۔

کہانی کار نے ایک نظر پھر کردار کو دیکھا وہ مر چکا تھا، کسی بے بس نظر پڑتے لفظ کی طرح، جسے مکمل نہ کیا جا سکا ہو۔ وہ صفحات پر بے سود، زرد سا ہوا جاتا تھا تو گویاء کھانی ختم ہونے کو تھی جس کا زکر الھامی کتابوں میں شاید کچھ یوں زکر کیا گیا تھا کہ جب کردار ختم ہونگے، کھانی کا بھی اختتام ہوگا اور صفحوں کا کیا؟ انھیں تو دیمک کھا ہی رھی تھی یہ دیکھنے میں کچھ عجیب سا منظر تھا۔ باھر ہوتی بارش اس سے نا واقف تھی اسے تو یہ بھی خیال نہ آیا ہوگا کہ کوئی اس بارش میں بھیگا کرتا تھا شاید اسے یہ بھی یاد نہ ہو کہ اس کی من پسند عورت بھی ساتھ ہوا کرتی تھی جسکا نچلا ہونٹ کچھ زیادہ ہی بھاری تھا اور دیکھنے میں کسی جنگلی پھل سے مشابہہ تھا اور تازہ اتنا جیسے نئی نئی بنی دنیا کا پھلا خوشبو دار رزق ہو لیکن وہ رزق بھی سڑ گیا تھا کسی گناہ کی کشش نے اسے بھی داغدار کیا تھا۔

کہانی کار بھت رنجیدہ تھا اور شدید بے بس بھی، تبھی اسے کوئی آواز سنائی دی، کوئی تھا دروازے کے اس طرف، جھاں بارش ہو رھی تھی اور لگتا تھا کوئی ہے، کہا نی کار کو پھلی بار کسی کی ضرورت محسوس ہوئی لیکن وہ اٹھ نھیں سکا تبھی وہ چیخنے لگا۔۔

دروازہ توڑ دو۔

دروازہ توڑ دو۔

لیکن باھر کھڑا، نجانے کون؟ جو بھی تھا، خاموش تھا۔۔

پھلی بار کہانی کار کو خاموشی زھر لگی اور تنھائی، جسے تلاش کرتے کرتے وہ اس علاقے میں آن بسا تھا پھر وہ شدید نقاھت کی وجہ سے خاموش ہوگیا۔ اس گھری خاموشی کو کمرے کی فضا نے سمجھنے کی کوشش کی، جسے وہ نہ سمجھ سکی کہ اسکی سمجھ بوجھ میں محض ایک ہی آدمی تھا جسے اس نے ھمیشہ لکھتے ہی دیکھا تھا۔ باقی کچھ صفحات تھے جنھیں دیمک کھا رھی تھی۔