1. ہوم/
  2. افسانہ/
  3. ڈاکٹر ارشد رضوی/
  4. خزاں آلود موسم کی بابت

خزاں آلود موسم کی بابت

"ہاں اتنا ہی کافی ہے کہ تمہیں دیکھے جاٶں"، پرانے مکان کی تاریک ہوتی ہوئی سیڑھیوں کے قدمچے پر کھڑ ے اسنے کہا تھا۔

یہ گزرا ہوا دن تھا جیسے اور دن گزرتے رہے تھے اور پرانے مکان کے مکین بڑھیاتے گئے تھے۔ جیسے خزاں نے ہرے چمکتے پتوں کو مرجھا کر رکھ دیا تھا، کہ سر لٹک گئے تھے لگتا تھا خزاں آلود تلوار انہیں کاٹتی گزر گئی ویسے دیکھا جائے تو یہ آج کی کہانی نہیں تھی، جب سے دنیا بنی تھی ٹھیک جب سے ہی ہر زندہ سانس لیتے جسم کے آگے موت رکھی تھی۔ موت جو ندیدی، سنولائی بلی کی طرح منہ مارتی پھرتی ہے کہ زرا دھیان بھٹکا وہ اچھا خاصا جسم لے اڑی پھر ڈھونڈتے پھرو، روتے پھرو، کچھ ہاتھ نہیں لگتا ہاں ایک خالی پن رہ جاتا ہے، محسوس کرو تو خاموش تماشائی سا۔

کچھ ایسا ہی خالی پن درو دیوار سے چمٹا "رینگتے ہوئے کیڑے سا" دیکھائی دیتا تھا تبھی، ایسے ہی سہمے ہوئے ماحول میں اسے دیکھا گیا تھا کہ اندھیری بل کھاتی سیڑھی کے کسی ایک قدمچے پر وہ اپنے شدید محسوس کیئے جانے والے حسن کے ساتھ کھڑی تھی اور یہ جملہ بولا گیا تھا، جس کی لو سے اس کے گالوں پر ایسی چمک نے بسیرا کیا تھا جو چمکتے نظر آتے، اجسام کا خاصہ ہے۔ ایسا کہہ کر وہ اوپر جاتے قدمچوں سے ہوتی چھت پر بنے کسی ایک کمرے میں جا چھپی تھی۔

ویسے چھت پر تین کمرے تھے، تین ہی در تھے جو کھلتے وقت شور مچاتے جن کے شور سے پرندے اڑتے، یوں ایک عجیب سامنظر دیکھنے کو ملتا اس وقت لگتا سب کچھ پرانا ہوا جاتا ہے لیکن وہ دن بدن نکھرتی جاتی ہے جیسے چینی کا کوئی برتن ہو، صاف شفاف، کورا، چمکتا ہوا، جسے چھونے کی خواہش بے حال رکھتی ہو۔ ویسے میں کسی بھی کمرے کی طرف نہیں گیا، بس ان کی طرف جاتی سیڑھیوں سے ہی واپس آتا رہا تھا جب بھی وہ بلاتی، دیکھتا کسی ہنہناتی گھوڑی سی کسی ایک قدمچے پر کھڑی ہے۔ اس کے گھر کے سامنے جو مٹیالا سا دکھتا گھر تھا وہاں کی ایک کھڑکی سے دو مجزوب چہرے جھانکا کرتے۔

اس دن بھی جب ہم ایک دوسرے کو بے رحمی سے چوم رہے تھے اور زخمی کر دینے کو تھے وہ چہرے ہمیں دیکھتے تھے، ایسی آنکھوں سے جہاں سمجھنے کی صلاحیت معدوم تھی اگر وہ کچھ سجھے بھی ہوں گے تو لگا ہوگا دو جانور ہیں، ایک دوسرے کو زیر کرنے میں مصروف ہیں ویسے بھی طویل بوسوں نے ہماری آنکھوں کو بندکر دیا تھا اور اس کے ملبوس کو بے حال، جسے وہ بڑے اہتمام سے پہن کر آئی تھی۔ کھڑکی پر لگی زنگ آلود تیلیاں پکڑے وہ چہرے بس دیکھ ہی سکتے تھے اور اگر میرا دھیان اس طرف جاتا بھی تھا تو وہ شدت سے لپٹ جاتی تھی اور پراسرار دائرے، بے شرم خیالوں کی طرح پر کشش ہوتے جاتے، ارد گرد سے بیزار کرتے جاتے۔

یہ احساس کے صرف وہ ہی موجود ہے باقی فریب ہے۔ ویسے بھی ہمارے اردگرد سنسان ہوئی جاتی گلیاں تھیں، بڑھیاتے لوگ کمروں کی شدید تنہائی میں سانس لیتے لیتے اوب گیئے تھے۔ کبھی کبھی خزاں آلود ہوا، گرد لیئے آ نکلتی اور یہاں وہاں سر مارتی پھرتی۔ عجیب سا موسم، نجانے کب سے پیچھے لگا تھا، گلیوں، مکانوں، دروں، کھڑکیوں سےٹکراتا موسم، کبھی لگتا مجذوب ہے، لیکن اندھا نہیں کہ وہ تو ٹٹول کر حملہ آور ہوتے ہیں، سونگھ کر لپٹتے ہیں اود اپنی آنکھوں کے گرد پھیلے جمود میں رہتے ہیں یہ موسم تو کسی نفسیا تی بیماری کے ہاتھوں سا، ایسی شکلیں بناتا جیسے کوئی پاگل ہو اپنی کرتوتوں سے بے نیاز، اس جگہ نکل آیا ہے اور سب کچھ مرجھاتا جاتا ھے۔

سب دیکھتے وہ ہر جگہ موجود ہے، کوئی بھی پہر ہو، کیسا بھی دن نکلا ہو، سرمئی سا یا سورج کے ہاتھوں جھلسا، رات ہو، چاند کے ہاتھوں الف ننگی سی۔ خود وہ تین کمرے بھی، جن میں کسی ایک میں وہ چھپ جاتی ہے، الگ الگ شکلوں سے دیکھتے ہیں، چھت جس پر وہ رکھے ہیں، کتنی اداس دکھتی ہے ہاں مجھے اسکے اپنے کمرے کی اندرونی حالت کا علم نہیں کہ وہ اسے مختلف اوقات میں دیکھتا ہے۔ سوتے، جاگتے، پیراہن بدلتے جو بہار کے موسموں کی طرح اس کے حیران کن بدن کو ڈھانپ لیتے ہیں۔

باہر کا موسم ویسا ہی ہے۔ اسے کچھ کہتے سنا گیا ہے کوئی ایسی بات جو وہ تاریک راتوں میں محسوس کرتا ہے یا چاند جو اس سے ھمکلام ہوتا ہے یہ ھمکلامی، حبس سے بوجھل راتوں میں وقوع پزیر ہوتی ہے کچھ ایسی گفتگو جو انسان سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ واجبی سے کاموں کو میسرہیں، کائنات کی گفتگو سے نا آشناء کہ نیند کا زہر انہیں مارے ڈالتا ہے۔ ویسے بھی وہ عمر رسیدہ ہوئے جاتے ہیں۔ گلیوں کا جال انہیں تھکائے دیتا ہے۔ دیکھا جائے تواس کے گھر سے جڑی گلی بھی کسی سنگین سے کیئے گئے جرم میں قید ہے۔

کچھ پرندے کبھی کبھی بولتے ہیں، جو گھروں کی ویران جگہوں میں چپھے ہیں یا جیسے کہا گیا، ہوا ہے جسے بادبانی شکل کے اسی مکان سے ٹکراتے دیکھا گیا ہے جہاں سے وہ آتا دیکھائی دیا تھا وہی مرا ہوا دوست، جو یہاں ہی ملا کرتا تھا اور جب بہت دنوں نہیں ملا تھا تو میں اسکے گھر گیا تھا تو اس کی ویران نظر آتی عورت نے بتایا تھا وہ تو مر گیا، لیکن وہ چلتا ہوا آ رہا تھا۔ ہاتھ میں وہی من پسند سگریٹ سلگ رہا ہے۔ گہری مونچھوں کے نیچے چپھے ہونٹ کجھ کہنا چاہ رہے ہیں لیکن الفاظ سجھ نہیں آ رہے، میں اسکے اشاروں سے اندازہ لگاتا ہوں شاید وہ قبرستان کے بھر جانے کی خبر دے رہا ہے ہاں بس اتنا ہی کہ کوئی تیز جھونکا اسے اڑا کر لے گیا یے اور جگہ خالی ہے۔ ویسے اس کی بات سہی تھی جو اس نے کہی واقعی لوگ مرتے جاتے ہیں، گھر خالی ہوتے جاتے ہیں اور ہر بار مجزوب چہروں نے دیکھا ہے کہ کچھ لوگ کسی نہ کسی کو دفنانے جاتے ہیں اور خالی ہاتھ واپس آتے ہیں۔

اگر قریب ترین قبرستان کا زکر کیا جائے تو ایک گلی اس طرف جاتی ہے، پھر قبرستان اور گلی کے خاتمے پر ایک بہت پرانا کنواں ہے جس کے اندرون میں کہیں ٹھنڈا پانی موجود ہے۔ آگے ایک جھونپڑی ہے جس میں سب سے قدیم شخص رہتا ہے جسکے پاس جا کر لگتا ہے کہ کسی ورد میں مصروف ہے، چہرہ دیکھ کر حشرات العروض کی کھودی گئی جگہ کا خیال آتا ہے۔ ناک کے نتھنے، منہ حلق تک اترتا ہوا، لمبے کانوں کے اندر اترتے سوراخ، آنکھوں کے بجھے ہوئے طاقچے، کچھ ایسا ہی ہے دور تک کھدا چہرا، وقت کےکیڑے اسے کہاں کہاں تک کھا چکے ہیں لیکن زندہ ہے اور علاقے کے لوگوں کو مرتے دیکھتا ہے۔

جب یہ علاقہ ترتیب دیا گیا تھا تو خالی گلیوں پر بڑے یقین کے ساتھ پختہ مکان بنائے گئے تھے۔ کھڑکیوں سے نظر آتے کمروں میں کشادگی رکھی گئی تھی لیکن جب بڑے دروازے سے جڑی ڈیوڑھیاں بنائی گیئں تو کہیں سے ٹیڑھا مکوڑا سا وہم در آیا، ادھر سیڑھیوں کے قدمچوں پر مجہول سی تنہائی آن بیٹھی اور بیٹھی ہی رہی، کوئی بھی موسم ہو، کیسا بھی تہوار ہو، وہم اور تنہائی نے اپنی جگہ نہ چھوڑی اور نہ ان کا دم نکلا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ تجربہ کار اور باتونی ہوگیئں یہاں تک کے گھر پرانے ہو گئے۔ انہیں پرانے گھروں، عمر رسیدہ ہوئے جاتے مکینوں، اورمخصوص حصوں سے جھانکھتیں دو بلاٶں کے ہوتے ہوئے وہ جوان ہوئی اور اسے پہلے دن سیاہ لباس میں دیکھا گیا، غور سے دیکھنے والوں نے اسکے ہونٹوں پر بے پناہ نظر آتی شہوت بھی دیکھی۔

یہ بھی دیکھا گیا کہ آنکھیں سیاہ ہیں اور دودھیا چہرے پر مسکراتی رہتی ہیں، لمبے بالوں نے پشت تک حکمرانی کر رکھی ہے اور پوری گلی میں سراسیمگی پھیلی ہے یہ بھی ہوا کہ لوگوں نے آسمان کی طرف دیکھا، کچھ مخصوص دعائیں مانگیں کہ انہیں لگا کوئی شیطانی طاقت ایسے جسم میں داخل ہوگئی ہے جسے دیکھ کر عبادت گاہوں کی طرف جاتے لوگ بھٹک جاتے ہیں۔ وہ بھی تو بالکونی میں آن کھڑی ہوتی۔ سفید پنڈے پر گل بوٹے اگائے، جن سے نشہ آور بو پھیلتی جو پوری گلی کو مدہوش دیتی۔

ویسے وہاں اور بھی کردار تھے، ایک چھوٹے قد کا اڈھیڑ عمر شخص، ایک بھینگا جو عام طور پر گلی کےکونے میں کھڑا نظر آتا، ایک سیاہی مائل عورت اور اسکا آشناء، جو کسی دور کی گلی سے ملنے آتا ہاں وہ دو مجذوب چہرے، جن کا ذکر میں نے پہلےکیا وہ ہمیشہ ہی جھانکتے نظر آتے کہ ایک بار بچپن میں انہیں آزاد کیا گیا تھا تو انہوں نے لوگوں کو کاٹ کھایا تھا تبھی سے وہ بند تھے پھر بوڑھے ہوئے جاتے لوگ تھے جن کو کسی ایسی بیماری نے آن لیا تھا جو انہیں کسی گھن کی طرح کھا رہی تھی۔ ایک ہی ڈاکثر تھا، عجیب سا چشمہ لگائے مختلف گھروں میں آتا جاتا دیکہائی دیتا۔

ہاں یاد آیا ایک دیوار تھی، کسی کردار سی ہی نظر پڑتی یا پھر خود سے باتیں کرتا شخص، کافی کافی دن غائب رہتا کبھی کبھی نظر پڑتا، دیکھا جاتا دیوار کے پاس کھڑا ہے اور باتیں کرتا ہے۔ ویسے گلی میں بنے گھر بھی کچھ کہا کرتے، لیکن سننے والا کوئی نہیں تھا۔ میں خود بھی کسی کا کہاں رہا تھا کہ سجی بالکونی، مجھے فرصت ہی نہ دیتی کہ جو اشارے کیئے جاتے، ان میں ملبوس میں چپھے بدن کی آوازوں کا شور صاف دیکھائی دیتا جیسے وہ بالکونی صاف دیکھائی دیتی اور جو گھر تھے ان میں مماثلت تھی۔ اسکے ماں باپ بھی اپنے کمروں میں پڑے بیماری جھیل رہے تھے اور میرے گھر میں بھی کچھ جسمانی آزار تھے لیکن وہ توجی بھر کر صحت مند اور آزاد تھی۔

شام ہوتے ہی بالکونی میں آجاتی اور کسی آسیب سی چھا جاتی جو رات کے آنے تک سرسراتا رہتا اب خیال آتا ہے اس کا ایک بھائی بھی تھا جسے سیڑھیاں چڑھنے اور چھت سے جھانکنے سے خوف آتا۔ وہ پچھلے، کسی کمرے میں پڑا رہتا شاید سوچتا وہ محفوظ ہے حالانکہ محفوظ کوئی بھی نہ تھا۔ آسمان سے آفات اترا کرتیں، زمین زہرآلود رینگتے جانداروں سے بھری رہتی یا کبھی کبھی مرے ہوئے لوگ نظر آتے، گلی کے نکڑ پر، یا پھر چھتوں پر جہاں پرانا سامان بارش اور دھوپ جھیلتا رہتا وہیں اس خاص سی جگہ پر وہ زرد زرد چہروں کے ساتھ، دیکھائی پڑ تے جب شام ہوتی یا صبح سویرے، اونگھتے ہوے جیسے رات سے وہاں موجود تھے بس دیکھائی نہ دیتے تھے۔

ایک دن جو ایسی ہی رات کے بعد نکلا تھا، تیز دھوپ تھوتھنیاں نکالے جگہ جگہ منہ مارتی تھی۔ سامنے سے نظر آتی بالکونی یوں تو خالی دکھتی تھی لیکن پرانے جھڑتے پٹ کے پیچھے کوئی تھا۔ یہ وہی تھی، کسی زخمی مادہ کی طرح گہرے گہرے سانس لیتی ہوئی، دو گہرے تازہ زخم رستے ہوے یا بہتی ندی جس کی سطح پر سرخ پھول بہتے جاتے ہوں۔ اسے محسوس کیا جا سکتا تھا کہ بے لباس ہے تبھی میں رونس تک گیا جہاں سے سب صاف اور برہنہ نظر آتا تھا۔ پیچھے دھوپ تھی جسکی کی یکسانیت میں اسکا آدھا بدن، ادھ کھلے پٹ سے جھانکتا تھا اور صاف شفاف لرزتا ہاتھ درکے ایک حصے پر رکھا بلاتا تھا۔

میں نے گلی دیکھی، ہمیشہ کی طرح سنسان تھی سوائے بھینگے شخص کے، جو گلی کے موڑ پر کھڑا تھا۔ کھلی بانہوں سے در اندر کی اور بلاتے تھے جہاں بیماری کے ہاتھوں لوگ کراہ رہے تھے یہ زندہ رہنے کی سزا تھی۔ بیماری کی بو سے بھرے کمروں کے ساتھ ہی سیڑھیاں اپنے قدمچوں کو سنبھالے سنبھالے تھکا ہوا خیال لگتی تھیں۔ جہاں وہ تھی وہ اوپر کا حصہ تھا اور بدن پر کچھ گیلے گیلے بچھو رینگنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ ایسے زہری سیاہ بچھو ایک بار میں نے خواب میں دیکھے تھے۔ خواب مجھے یاد رہ گیا تھا تبھی اس کی ملائم مٹی پر انہیں دیکھ کر مجھے وہ خواب یاد آگیا جس کی شدت سے میری آنکھ کھل گئی تھی۔

میں نے اس سے کہا بھی کہ ایسے بچھو جو تمہاری ناف کے قریب رینگتے ہیں، میرے خواب میں آچکے ہیں، لیکن وہ کسی خیال میں بسی، مخمور سی نظر آتی، ایسی دو پایہ تھی جسکی جلد کے کچھ حصوں پر زہریلے کیڑوں کی آمدو رفت بڑھتی جاتی تھی جسے روکنا میرے بس میں نہیں تھا میرے بس میں کچھ بھی تو نہیں تھا، باہر جو بھی وقوع پزیر تھا، وہم، تنہائی، بوڑھے ہوئے جاتے جاندار، کچھ کہتے مکان، کچھ محسوس کرتے کمرے، سنسان نظر آتی گلیاں، مجذوب چہرے اور کچھ کردار جن کا زکر اس قصے میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے، میری یاداشت میں سارا منظر کچھ کچھ واضح تھا، ہاں کچھ منظر محو لگتے تھے، ارد گرد کے جہاں سب کچھ ختم ہو رہا تھا، ایک دنیا جسے بڑی ترتیب سے بسایا گیا تھا جب جانداروں نے زندگی شروع کی تھی۔

مکان تو اسکا بھی جھڑتا جاتا تھا درو دیوار، کمرے، مکین اور انہیں میں وہ تھی، جو روز نئی سے نئی ھوتی جاتی تو وقت، جو بدصورتی لیئے آتا جاتا تھا، اسکی پیدا کی گئی نمائش انہیں ایک خاص جگہ اور وقت میں تروتازہ رکھتی۔ ان لمحوں میں بھی جو جاتی دوپہر کا حصہ تھے، ویران ڈیوڑھی سے جڑی سیڑ ھی کے قدمچوں پر پھسلن، دلدل بنتی جاتی تھی جس کے اندر پیدا ہوتے، جرثومے منتقل ہونے کو تیار تھے کہ کسی انسانی شکل میں تبدیل ہوں، اسی انسانی شکل میں، جس کا مستقبل ابھی طے نہیں کیا گیا تھا۔