1. ہوم/
  2. افسانہ/
  3. ڈاکٹر ارشد رضوی/
  4. شہر آشوب کی رویٸداد

شہر آشوب کی رویٸداد

یہ تیزی سے غائب ہوتے دنوں کا قصہ ہے جو کسی کے ہاتھ نہیں لگے، اگر لگے بھی ہوں تو کچھ اسطرح جیسے کوئی احساس، جسے سمجھا نہ گیا ہو۔ لگا کوئی کائی لگی شے چھو کر گزر گئی۔ کچھ ایسا کہ ان دنوں جو بھی ہوا، ان سے کسی کو لینا دینا نہیں تھا۔ یہ ضرور ہوا چہروں پر کچھ تبدیلیاں آ گیئں اور بالوں پر سفید سفید سے شائبے، لگا دن جو اتنی تیزی سے گزرے، بہت کچھ ساتھ لے گئے بس چہروں پر جھریاں سی نظر آتی بے بسی چھوڑ کر آسمان کے کسی نہ نظر آتے حصے میں جا چپھےہیں، آسمان کو دیکھو تو ایسا لگنے لگا ہے جیسے بوجھ اٹھائے ہوئے، لگتا ہے گرنے کو ہے۔

آسمان بھی کیا کرے کہ نجانے کب سے دکھ سے بھرے دنوں کی دھول اوڑھے، میلا سا ہوا جاتا ہے۔ زمین سے دیکھنے والوں کو وہ خمیدہ کمر لیئے، جھکا جاتا، نظر پڑتا ہے۔ ان حالات میں زمین کا رویہ کچھ عجیب سا رہا ہے۔ کہہ سکتے وہ ہمیشہ کی طرح نہ بد دل دیکھائی دی نہ ہی اس نے غائب ہوئے دنوں کے بارے کسی سے ذکر کیا۔ اسنے دیکھا دنوں کو ختم ہوتے پھر دوبارہ سے پیدا ہوتے، جیسے مرتے جاتے دن، کچھ سانسوں کے ساتھ زندہ ہوئے پھر مر گئے نہ دفن ہوئے بس کہیں آسمان کی نیلاہٹ کا حصہ بنتے گئے۔۔

ویسے وہ کس سے زکر کرے ہاں اسے یاد ہے کہ مرے جاتے دن، جب یہاں تھے کیسے نبردآزماء تھے، کیسے کیسے دکھ سہتے تھے، پھر ختم ہوئے۔ زمینی لوگوں کا بھی اس روز کے ہونے والے کائناتی عمل کے رونما ہونے کے بارے میں کوئی ایسا گہرا خیال نہیں جو انہیں روز کے معمولات سے روک سکے یہ الگ بات ہے کہ وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ختم ہوتا محسوس کرتے ہیں۔ کبھی لگتا وہ کم سننے لگے ہیں۔ وہ بولنا چاہیں تو لعاب سے بھرا خوف تالو میں اٹکا، انہیں گونگا بنائے دیتا ہے۔۔

ان کی آنکھیں دن کی روشنی میں بھی کم کم دیکھتی ہیں اور رات ہوتے ہی شدید اندھا پن انہیں آن لیتا ہے۔ چلتے بھی سہم سہم کر، جیسے کوئی پھپھوندی سی لگی ان کے اعصابی نظام کو کمزور کیئے دیتی ہے۔ دور سے دیکھنے پر وہ ان اشیاء سے مماثلت رکھتے دیکھائی دیتے جن میں شدید سڑاند نے بسیرا کر رکھا ہو۔۔

شہر یا ان سے جڑے دیہاتی علاقے، وہاں سانس لیتے اجسام کو بس اتنا ہی یاد ہے کہ وہ گزرے دن اذیت ناک تھے۔ ہر دن ایک نیا آسیب لیئے طلوع ہوتا رہا تھا پھر ایک انجانا سا خوف جو نئے دن کے آغاز سے پہلے ہی انہیں آن لیتا۔ لگتا سانس رکنے لگا ہے کبھی لگتا مساموں سے پسینہ سا بہتا ہے۔ انھوں نے روز سورج کے جلتے گولے کو دور نظر آتی خشک جھاڑیوں میں گر کر زخمی ہوتے دیکھا تھا پھر رات کو بڑی پراسریت سے آتے جس کے اندر رتجگے یوں آن لیتے جیسے، مکڑی کے جال، جن میں نوزائیدہ نسل مردنی کی جلد اوڑھے، ایک جگہ ٹہری ہے۔ انہیں مناظر سے لڑتے ہوئے وہ دیکھتے وہی گرم آگ لیئے گولا سر نکالنے کو تیار ہے۔

آبادی میں کچھ ہی گھر تھے جن کی دیواریں اونچی، رنگ برنگے شیشوں سے مزین تھیں، چمکتیں نظر آتیں، جہاں اندر کے مناظر پوشیدہ تھے۔ باقی سارا علاقہ اندھیرے میں اتر جاتا پھر یہ تاریکی دن کے آنے سے ختم ہوتی۔ کچھ امید پرست، پیٹ بھرے طفیلیئے برسوں سے ہوتے واقعات کے بعد بھی یقین دلاتے کہ آنے والے دن کچھ بہتر حالت میں وقوع پزیر ہوں گے۔ وہ صبر کی تلقین کرتے۔ ان کی خطابت لوگوں کو افیون کی بو لیئے مدہوش رکھتی۔ وہ کچھ ایسے مناظر کا ذکر کرتے جہاں سکھ ہی سکھ، ان کا انتظار کرتا ہے۔

یہ سب کچھ انہیں سکون دیتا لیکن محسوس کرتے وہ شدید بھوک کے عذاب میں گھرے ہیں تبھی وہ دن کے نکلتے ہی پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کے لیئے ہمیشہ نئے راستوں کی طرف نکلتے کہ پرانے راستوں پر بھوک اگی انہیں تھکا ڈالتی تھی۔ انہیں لگتا یہی وہ راستے ہیں جن کا ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن نئے راستوں کا فریب بھی جلد ہی ختم ہو جاتا یوں بھی دیکھنے میں وہ راستے نئے نئےلگتے لیکن وہاں بھی پرانے راستوں کا عفریت، درختوں کے پیچھے چپھا انہیں ڈراتا تب وہ پرانی میلی جلدوں کی طرح سہم جاتے پھر آہستہ آہستہ ختم ہوتے۔ یہ اجتمائی خاطمہ انہیں ایک دوسرے کی مدد سے دور رکھتا۔

ختم ہونے سے یاد آیا وہ بھی ختم ہوگیا جو سب کو زندگی دینے آیا تھا۔ سرخ و سفید، پر رونق چہرے والا، اپنے صاف اجلے ہاتھوں سے نبض دیکھتا، صحت بخشتا یہ الگ بات ہے کہ وہ دوبارہ بیمار ہو جاتے، اس یقین کے ساتھ کہ وہ انھیں ٹھیک کر دے گا لیکن ایک دن کچھ لوگ گیئے تو دیکھا وہ ختم ہو چکا ہے۔ اس کی مسیحائی دم توڑ چکی ہے، گھومنے والی کرسی پر بے حس سا دیکھائی پڑتا ہے۔ وہ مر چکا تھا۔۔

اس دن بھی ایسا ہی ہوا بلکل وہاں، جہاں بورڈ آویزاں ہے، جس کے عین اوپر پرانا سا چجھہ نظر آتا ہے، تھوڑا باہر کو نکلا، اچانک گر گیا، نیچے خریدای کرتے ہوئے لوگوں پر، جو وہیں کسی چوٹ کے ہاتھوں ختم ہوئے، جو زندہ رہ گیئے ان کے زخمی ہوئے جاتے چہروں پر سراسیمگی پھیل گئی۔ وہیں ایک دیہاتی بوڑھا شخص روتا دیکھا گیا کہ اس کی جوان اولاد اس حادثے کا شکار ہوئی دونوں مزدوری کی تلاش میں وہاں آئے تھے۔ قریبی دیہات سے، جہاں ان کی عورتیں ان کے انتظار میں تھیں۔ لیکن شہر کے اس حصے میں موت بانٹی گئی وہی موت، جسکی کئی اشکال دیکھنے کو ملتی ہیں۔

شہر شہر، گاٶں گاٶں دن رات پیچھے لگی رہتی ہیں۔ اس دن وہ قدیم چجھے میں چھپی تھی۔ اسے ایک دن زہریلے سانپ کی شکل میں بھی دیکھا گیا تھا، شہر سے دور، گنے کی کھیت میں، جہاں وہ شوکتی تھی۔ ایک دن وہ سیاہ مائل بچھو سی دیوار کے ساتھ ساتھ رینگتی تھی جیسے خوراک کی تلاش میں ہو کہ بھوکہ رہنا اسے پسند نہیں تھا ہاں لوگ بھوکے تھے۔ بھیک مانگتے، اپنے اعضاء بیچتے تاکہ کسی صورت پیٹ بھر سکیں لیکن پیٹ کا ندیدہ دوزخ کہاں بھرتا تھا؟ تبھی موت آ جاتی ہے ان کے دکھوں کو ختم کرنے۔

جہاں تک زندگی کا تعلق تھا وہ بھی موجود تھی لیکن اس کی موجودگی ختم ہونے کے لیئے بنی تھی بلکل ایسے ہی جیسے گرم مہینوں میں چمکتی دوپہریں، جنہیں شام کی سنولاہٹ دھندلانے لگے، پھر رات چبانے کو تیار ہو یہ کب سے ہوتا رہا ہے لیکن بیانیے میں ہکلاہٹ ہے۔ بیانئے نے الجھا دیا ہے۔ بات سمجھ میں آئی نہیں یا پھر چرب زبان اشرفیہ نے بیانئے کو ایسی آفت قرار دیا جو گناہوں کا نتیجہ تھی جو صرف ان لوگوں پر اتری تھی جن کے چہروں کے نقوش گرمی کی شدت سے پگھل چکے تھے۔ وہی دھتکارے ہوئے لوگ جنہیں غلیظ بیماریوں نے گھیر گھیر کر مکروح کر دیا تھا۔ ان کے جسم اجڑتے جاتے تھے۔ پٹھوں سے گوشت روٹھتا جاتا تھا۔ دیکھنے سے لگتا کوئی سوکھے کی بیماری ہے یا کوئی ایسی بلا جو سنسان راستوں سے گزرتے ہوئے ان پر منڈلائی ہو اور وہ اسے انجانے میں ساتھ لے آئے ہوں۔

کنکریٹ کے جنگل، اجڑے کھیت، معطل اعصا ب، سراسیمہ سانس اور اچانک حملہ اور موت، مصوری کے ایسے نمونے تھے جنہیں مصور کے برش نے نہ ختم ہونے کے لیئے بنایا تھا۔ دیکھا جائے تو کچھ لکیریں تھیں جن کے رنگ زرد اور سرخ تھے۔ ایسا کہا جاتا ہے ایک گہری حبس زرہ رات کو آگ لگی، خیال تھا سب کچھ جل کر ختم ہوگا لیکن تصویریں بچ گیئں اور اگر کچھ جلی بھی تو اور مکروح نظر آنے لگیں۔ انہیں جگہ جگہ دیکھا جا سکتا تھا۔ اب یہ حالت ہے کہ دیکھتے ہی ڈر بیٹھ جاتا ہے جیسے اور بہت سی اشیاء جو جھلسنے، جلنے یاراکھ ہونے سے بچ گئی تھیں کہ ڈر ختم نہ ہو۔ اسی گھر کے پاس کچھ اداس نظر آتے گھر تھے جہاں کچھ اداس چہروں والےلوگ رہتے تھے، جنہیں کہانیاں لکھنے کا مرض لاحق تھا۔

کچھ کہانیآں ایسی لکھیں گیئں جو مردود کہانیاں تھیں تو کہانی کار بھی مردود کہلائے گئے تبھی انہیں اپنی جگہ چھوڑنی پڑی وہ کہیں ایسی جگہوں میں جا بسے جہاں وہ خود کو محفوظ سمجھ سکیں کہ جہاں تھے وہاں وہ محسوس کرتے ان کا کوئی پیچھا کرتا ہے۔ دوسروں کا خیال تھا وہ کچھ خبطی یا وہمی ہو گئے ہیں۔ لیکن وہ جہاں خود کو چھپا سکے تھے وہ دیہاتی علاقوں کے قرب میں ایک چھوٹا سا خودرو جنگل تھا جہاں مختلف اقسام کے جانوروں نے انہیں گھیر لیا جن کے نوکیلے دانت گہرے لعاب لیئے نظر آتے، اپنی حیوانی بو لیئے، جو کچے گوشت اور لید سے مل کر سارا منظر برباد کرنے کے درپے تھی۔ انہیں لگتا وہ گھنے، پرانے ہوئے جاتے درختوں میں بھی محفوظ نہیں شاید تبھی سے وہ آنکھیں بند کرنا بھول گیئے تھے اور پرندوں کی پھرپھراہٹ سے بھی ڈر جاتے تھے۔

وہاں کچھ عورتیں بھی تھیں، جن کے مرد شہروں شہروں در بدر پھرتے تھے باوجود اسکے کہ رزق کے دروازے بند ہو چکے تھے۔ دیکھا گیا تھا رزق نے ناراضگی کا اظہار کیا تھا ہاں کچھ جانور تھے جنہیں وہ میسر تھی تبھی ان کی اولاد حرام زدگیاں کرتی پھرتی تھی۔ وہ عورتیں جو مردوں کے انتظار میں بے صبری نظر آتیں وہ اسی حرامی نسل کے ہاتھ لگتیں تبھی وہ تازی تازی تو نظر آتیں لیکن ان کے جسم کے خاص حصے بھاری بھاری دیکھائی دیتے جو بعد کے آنے والے دنوں میں ان کی بدنامی کا باعث بنتے تبھی وہ چوری چھپے کہیں جنگل میں پیٹ ہلکا کرتیں۔ ایک پستہ قد کی عورت جسکے منہ کے کنارے گالوں تک چرے ہوئے تھے، کسی گرم دن کے نکلتے ہی کنواں میں کود گئی۔

ایک حاجت کے لیئے قریبی کھیتوں کا کہہ کر گئی پھر واپس نہیں آئی- باقی عورتیں بھی ایک ایک کرکے غائب ہوتی گیئں ہاں ان کے کپڑوں کے کچھ چیتھڑے درختوں کی خشک ٹہنیوں سے لٹکے پائے گئے۔ ایک عورت کے جسم کے کچھ حصے دلدل میں چھپتے دیکھے گئے، وہ گھر سے ننگے سر، بال کھولے نکلی تھی۔ کچھ نے کہا اس نے سیاہ لباس پہن رکھا تھا۔ ویسا ہی لباس دلدل کے کونے پر رکھا تھا جس کے گرد نوکیلی گھانس سر اٹھائے دیکھتی تھی۔ وہ گھر جو دیکھتے ہی اجاڑ نظر آتے تھے وہاں بوڑھی عورتیں رہ گیئں جوآہستہ آہستہ مرتی گیئں۔ ان کی موت اچانک، یا تڑپ تڑپ کر ہوئی۔ تدفین ہوئی یا نہیں اس کے بارے میں کسی کو علم نہیں کہ مصیبت کے دنوں میں مذہبی رسومات کا کسے خیال رہتا ہے۔

کہانی کاروں نے یہ مناظر لکھنے چاہے لیکن خونخوار جانوروں سے ڈر گئے کہ وہ چاروں طرف انہیں گھیرے نظر آتے۔ ان کے ایک ایک لفظوں پر نظر رکھے، غراتے کہ دل سہم جاتے ہاں ایسے شاعروں کو آزادی تھی جو زیادہ تر قصیدہ خواں تھے۔ ہر دن کی متناسبت سے اشعار کہتے کہتے کافی عمررسیدہ ہو چکے ہیں۔ سامعین داد دیا کرتے۔ تالیاں پیٹتے یوں کیتھارسس سا ہو جاتا پھر سب دیسی یا ولایتی شراب پی کر سو جاتے۔ اس دن بھی جب بہت سی عورتوں کو غائب ہوتے دیکھا گیا علاقے کی ایک دن بدن پر رونق ہوتی جاتی عمارت میں بنیادی حقوق کی بابت سیمینار ہو رہا تھا۔ جہاں کی سرد فضا میں نامی گرامی دانشور لفظوں کی آگ جلا رہے تھے۔ جس کے بعد قصیدے پڑنے والوں کی بڑی تعداد تھی جن کے نام پہچائے گئے تھے، بس وہی اسٹیج پر جا سکے۔

باقی عمارت کی دیواروں سے سر ٹکرا ٹکرا کر اپنی قسمت کو کوستے تھے کہ اندر داد سمیٹی جا رہی تھی۔ لفافے اور شراب بانٹی جا رہی تھی۔ ایسا کچھ لمبی لمبی زبانوں والے میراثی بتاتے ہیں کہ وہ بھی وہاں موجود تھے ان کی عادت یے جگہ جگہ قصہ گوئی کی۔ ہو سکتا ہے کچھ مبالغےسے بھی کام لیا گیا ہو۔ لیکن کچھ ہوا ضرور تھا تبھی تو آسمان نیچے اتر آیا تھا سب کچھ سمیٹ کر لے ہی گیا ہوگا جیسے وہ بہت سے دن سمیٹ چکا تھا ورنہ تو مردہ دنوں کی غلاظت کون صاف کرتا۔ ہاں جب مرد واپس آئے تو دیکھا کوئی عورت بھی موجود نہیں صرف ان سے پیدا ہوئے بچے روتے ہیں۔ الگ رنگت اور شکلوں کے بچے، صحنوں کی اجاڑ زمیں پر اپاہجوں کی طرح محدود علاقے تک سرکتے پھرتے ہیں۔

اس دن مردوں کو روتا دیکھا گیا کی سننے والا کوئی نہیں تھا۔ شہر سے دور، اس رات، سجی سجائی عمارت کے ایک حصے میں رقص کی محفل سجائی گئی تھی جہاں مختلف قسم کی عورتوں نے ناچ کر دیکھایا تھا یہ بے صبری، ٹھٹے باز عورتیں تھیں جنہیں دیکھنےکے لیئے شہر کے معزز مہمان بلائے گیئے تھے۔ کم لباس، بھاری میک آپ میں عورتوں کی عریانگی دیدنی تھی۔ کچھ تو تماش بینوں کو خوش کرنے کی خاطر دیر تک ناچتی رہیں، یہاں تک کہ چھاتیاں تھک گیئں، کمر کی چربی پگھل گئی، منہ چر کر کانوں تک آگئے۔

دیکھنے والوں نے یہ بھی دیکھا کہ ان کے محدود لباس بھی اتر گئے جو، ان کے جسموں سے بےزار ہو چکے تھے۔ اترے لباس کی بو سے سب کے ہی نتھنے محضوظ ہوئے۔ کہا جاتا ہے وہ عمارت کی سیلن زدہ راہداریوں میں بے ہوش حالت میں یوں نظر آئیں جیسے آخری سانس لیتے پرندے جن کے پر کاٹ دیئے گیئے ہوں۔ ان کے مرد انہیں ڈھونڈھنے آئے۔ وہ اپنی اپنی عورتوں کو، ان کے زخمی اعضاء سے پہچاننے کی کوشش کرتے رہے، جو تیز، نوکیلے دانتوں کے نشانات کی وجہ سے بے حد تکلیف میں تھے۔ باہر خبر ہوئی تو مختلف وردیوں میں چپھے کرخت جسم، انہیں بھی کجھور کی بنی رسیوں میں باندھ کر لے گئے۔

عمارت سے تھوڑی دور کھدے، گہرے، اندھے کنواں میں انہیں پھینک دیاگیا جہاں وہ تعفن کا حصہ بنے ہونگے۔ دن تو مرتے ہی گئے لیکن ان کی بابت کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ کہا جاتا ہے کہ فیصلہ کرنے والے بھی اسی محفل میں موجود تھے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کنواں کے گہرے اندھیرے سے آوازیں آتیں ہیں ایسی آوازیں جنہیں کوڑھ لگے جسموں کی سرگوشیاں کہا جا سکتا ہے، جنہیں لوگ سنتے ہیں اور ان کی رہائی کے لیے زیر لب کچھ پڑھتے ہیں۔ انہیں جلدی ہے۔ دن مر رہا ہے وہ اس روز ہونے والے خاتمے سے پہلے بھوک اور پیاس بجھانا چاہتے ہیں۔۔