جھریوں سے بھری دادی کا چہرا، جس پر دو نیم اندھی آنکھیں دیکھائی دیا کرتیں، کچھ دیکھے گئے خواب سنایا کرتا یا کبھی لگتا کہانیاں ہیں، گزرے ہوئے قصوں کی طرح دھرائی جا رہی ہیں۔ وہ میرے ہی انتظار میں ہوتیں، میرے آجانے سے وہی خواب، قصے یا کہانیاں دھرائی جاتی جن کے کچھ حصے مجھے ازبر یاد تھے۔ اب بھی اگر کوئی مجھ سے وہ حصے سننا چاھے تو میں سنا سکتا ہوں حالانکہ وہ پوپلے منہ سے نکلے جملے کسی گیلے گیلے کینچوں کی طرح ر ینگتے نظر آتے۔ پھر میری سماعت بھی شدید کیئے گئے نشے سے متاثر سی ہوا کرتی تھی۔ جو روز کا ہی معمول تھا۔
زرد رنگ کی عمارت کے بہت اندر چھپا، اندر کی طرف، جھاں خودرو جھاڑیوں نے قبضہ کر رکھا تھا، ایک ویران ہوا جاتا فوارہ تھا، بس وہیں چھپے رھتے، جب تک کہ نشے سے بھرا دھواں ہماری حسیات کو بے بس نہ کر دیتا تبھی ان کی سنائی جاتی کہانیوں پر ہوں ہاں کرتا رھتا اور جھریوں کو دیکھتا جو لمبی عمر کا تلخ سا تحفہ بنی، کسی بھاری پانی کی طرح، ساکت بھی اور ہلتی بھی دیکہائی پڑتیں اور یوں لگتا کہ وہ اپنے تکلیف دیتے جسم کے ساتھ خوش ہیں۔ مجھے بتایا جاتا وہ میرے ہی انتظار میں تھیں۔ وہ عام طور پر شام ہوتی جو ساتھ جڑے مکان سے بھاری اور مغرور سی شاخوں والے درخت سے اترتی اور چہروں پر آ کر بیٹھ جاتی، گھر کے ہر شخص کو مکین بناتی ہوئی کہیں چھپ جاتی۔۔
دیکھا جائے تو سادہ سا، شفاف سا دورانیہ تھا۔ سب کے پاس بہت سا وقت تھا، گزر بھی جاتا۔ یاد بھی رھتا۔ ویسے اب کسی کے پاس وقت نھیں رہا، اور گزرتا بھی نھیں، یوں جیسے کوئی ٹہری ہوئی تصویر ہو اور اسے بنانے میں بہت جلدی کی گئی ہو۔ اس دورانیہ کے لوگ یا تو مصروف ہیں یا بیمار، ہاں یہ ضرور کہ سب کبھی کبھی بیٹھ جاتے ہیں، پرانی باتیں دھراتے ہیں اور پھر سے مصروف ہو جاتے ہیں جو ان کے جلد یا بدیر خاتمے کا باعث بنتی ہے۔
یاد کروں، تو چھوٹا سا گھر تھا جسکے صحن میں ایسے پودے نظر آتے جن پر عجیب طرح کے پھول آیا کرتے، جن سے میرے باپ کو عشق تھا ویسے اسکے مرنے تک میں اسکے بارے میں کچھ زیادہ نھیں جان سکا تھا کیونکہ وہ زیادہ تر خاموش دیکھائی دیتا لیکن پھر بھی سوچتا ہوں تو ایسا لگتا اسے پھولوں، جانوروں، کتابوں اور زمین سے پیار رھا اور وہ ان کے ہی خواب دیکھتے دیکھتے مر گیا۔ اس کے مرنے کے بعد کچھ کتابیں میرے ہاتھ لگیں جن کے ہلدی ہوئے جاتے صفحات پر، اسکی غیر معمولی لکھائی کے نمونے بھی ملے جنھیں وہ لکھا کرتا شاید کچھ کہانیاں تھیں جنھیں وہ لکھ نہیں سکا تھا یا پھر کچھ اور کام تھے جو اسے ضروری لگے کہ وہ پست متوسط افراد سا ایک شخص تھا جسے مواقع نہ مل سکے اور اگر ملے بھی تو اپنی انائے مثالی کی بدولت، کام میں نہ لا سکا ورنہ تو لوٹ مار مچی تھی جو جس کے ہاتھ لگتا، گھر لے آتا۔
ماں تو سب کی خدمت ہی کرتی رہی یھاں تک کے وہ بوڑھی نہیں ہوگئی اور مر نہیں گئی۔ اپنے مرنے کے قریبی دنوں میں، اس کی یادداشت نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا اور شاید وہ اس بلا کو بھی نہیں پہچان سکی جسے موت کہا جاتا ہے تبھی بہت آسانی سے اس کی بوجھل روح کھیں پرواز کر گئی یہ بھی ہوسکتا اس نے مکمل سفر طے کیا ہو ورنہ تو بہت سی روحیں نیچے نیچے اڑتی رہتیں تھیں اور باقی بہن بھائی ان سے ڈرا کرتے تھے حالانکہ وہ تو خود اپنی ہی مصیبت کے ہاتھوں پریشان، سانس بھرنے کے لیئے جگہ تلاش کرتی پھرتیں۔
دادی کے زمانے میں کبھی مرنے کا خیال نہیں آتا تھا لگتا بس جھریاں ہی آ جاتی ہیں اور انکھیں دیکھنا بھول جاتی ہیں لیکن ایک دن وہ جھریاں ساکت ہوگئی۔ اس وقت مجھے لگا، شاید دادی کے پاس سنانے کے کچھ نہیں رھا اور باپ کی انکھوں میں کچھ بادل دیکھے گئے، جو برسنے کو تیار تھے لیکن برستے نہیں تھے۔ بہت سے لوگ جمع ہوئے، وہ سب بھی اب زندہ نھیں، الگ قبرستانوں میں دفن ہیں اور ان کی قبریں بھی موسموں کی شدت سے شکلیں بدلتی رھیں پھر کچھ تو ختم ہی ہوگئیں گویا ان کی بھی ایک عمر تھی، گزاری اور مٹی برد ہویئں۔
ایک دن جب آسمان پر بادل تھے، میں وہ گھر دیکھنے گیا۔ وہ وہیں تھا لیکن جگہ جگہ سے کسی بیمار ہوئے جاتے جسم سا، ختم ہوتا ہوا اور خالی سا، جیسے ھڈیوں سے گوشت سکڑتا جاتا ہو۔ قریب جا کر دیکھا تو اجاڑ، کسی بیوا عورت سا نا مطمئن، دیواریں، سیلن کے ھاتھوں بے حد اداس، جیسے وہ ایک جگہ کھڑی کھڑی تھک گئیی ہوں اور کسی بوڑھے شخص سی خمیدہ، جسے بس مرنے کی خواہش ہو لیکن ابھی پوری نہ کی گئی ہو۔
میں بس واپس ہی لوٹ آیا، کچھ ایسے احساسات کے ساتھ جو عام طور پر اس وقت آن لیتے ہیں جب آپ کسی قریبی شخص کے جنازے میں شریک ہوں۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں مکان کا بوجھ اٹھائے اسے دفنانے جا رھا ہوں۔ ایسا مجھے لگا ویسے بھی کوئی شناسا صورت نا پید تھی ورنہ تو آوارہ دوستوں کا جھنڈ ہوا کرتا تھا ہو سکتا ہے وہ اپنے اپنے مکانوں کو دفنانے ائے ہوں، الگ الگ موسموں میں، جب انہیں فرصت ملی ہو کہ مکان انتظار میں تھے۔ دروں سے جھانکتے تھے۔ کچھ دیواروں سے، کچھ کھڑکیوں سے۔ خود میرا مکان بھی مجھے کبھی دادی سا یا باپ اور ماں سا لگا تھا، جھریوں کے آسیب سے جھانکتا اور پوپلی زبان میں کچھ کھتا، یہی کے مجھے دفنا دو کہ میری عمر ختم ہوئی۔
ختم تو سب کچھ ہی ہوگیا تھا ہاں ایک افراتفری سی زندہ تھی جو جگہ جگہ شور مچاتی، راستہ کاٹتی، پچھل پائی سی کہ وہ راستے جو تنہا نظر آیا کرتے، اب ہجوم سے بھرے بے بس دیکھائی دیتے یوں نظر پڑتے جیسے تھکے ہوئے بھوت ہوں۔ ایک راستہ تو پہچانا ہی نہی گیا، ہاں ایک جگہ ایسی تھی جو اس کوڑھ سے بچی، پہچانی جاتی تھی جو راستے پر ویسی ہی موجود تھی جیسے ہوا کرتی تھی، ہو سکتا ہے کوئی معمولی سی تبدیلی کہیں ہو لیکن پھر بھی وہی پرانا پن زندہ تھا جو یاد تھا۔ وہی جگہ جہاں سے گزرا کرتا تھا۔ ایک خاص موڑ، جس کی بابت بہت سے قصے تھے کہ یہاں کوئی سایہ ہے۔ وہی زرد سی دیوار اور اگر بتی کی شرمیلی سی خوشبو، آج بھی تازہ تھی۔ ویسی ہی تنہا اور اداس، جیسی ایسی جگہیں ہوتی ہیں۔ لیکن کوئی شناسا چہرا نھیں تھا۔ سب نیئے نقوش لیئے نظر آتے تھے اور تیز تیز چلتے جسموں پر رکھے گہرے گہرے سانس لیتے تھے۔
مجھے کچھ لینا تو نھیں تھا بس شہر میں آن بسا تھا۔ سبز باغوں، دیدہ زیب عورتوں اور پراسرار سی گلیوں کے شہر میں، جسے چھوڑ ے ہوئے ایک عرصہ بیت گیا تھا۔ جس شہر میں جا بسا تھا وھیں شادی کر لی تھی۔ خوبصورت سی آنکھوں والی لڑکی سے، جو شام کی ہوا سی، گھنے بالوں کی خوشبو سی، یھاں وہاں مہکتی نظر پڑتی، پھر فربہی کا شکار ہوئی۔ وہ آنکھیں جن پر نظمیں لکھی گئیی تھیں، آہستگی سے مرجھانے لگیں ایسے جیسے وھی جھر نے سا بہتا جسم، اسی جانب بہہ نکلا جہاں تیز رفتاری تھی کہ لگا وقت کا آسیبی جبر، بڑی بے رحمی سے بہت کچھ چگ گیا لیکن کچھ ابھی بھی جگہ جگہ ٹہراتھا جیسے ھری ھری گھاس اگی ہو اور وقت کے انتظار میں ہو یہ جانتے ہوئے کہ آنے والا وقت خزاں آلود ہوتا ہے۔ چہرے کے خدوخال پر مکڑی کے جال بنتا ہے۔
خود میرا چہرا بھی دیمک کی اگلی مٹی زدہ لکیروں سے بھرتا جاتا ہے۔ دور کچھ نظر آتا ہے، کچھ آتا ہوا، نجانے کیا؟ کوئی آواز یا کوئی شکل؟ جس کا پھلے سے اندازہ نہ ہو۔ رات کے کسی پہر میں، اس دن بھی، جب رات تھی میں نے ساتھ سوتی عورت کو اٹھایا اور اسے کسی کے آنے کے بارے بتایا۔ اس نے نیند بھری آنکھوں سے دیکھا پھر ہمیشہ کی طرح مجھے وھی بات کہی جس کا تعلق محض یہ تھا کہ میں کسی خواب کے ہاتھوں ڈر گیا ہوں جبکہ یھاں کوئی نہیں ہے۔ میں نے بھی غور کیا، کھڑکی سے لگا زرد سا چاند ہے، ہوا ہے، اوارہ پکھیرو کی طرح ماری ماری پھرتی ہے پھر اوپر آسمان ہے، روز بروز نیچے گرتا ہوا۔ ہو سکتا ہے سانئسدان اسکا حل نکال بھی لیں کہ پچھلے دنوں کی وباء میں، جب لوگ خون تھوکتے تھوکتے مرنے لگے تھے، کسی ویکسین نے انہیں زندگی دی تھی۔
یہ شاید صبح تھی، اس رات کی جس نے مجھے ڈرایا تھا، بیوی اٹھا رھی تھی، یاد آیا کام پر جانا ہے جہاں کچھ اجنبی چہروں کے ساتھ دن گزارنا ہے، دن جو چاردیواری سا ہے جسپر تیز نوکیلے شیشے منہ نکالے نظر آتے ہیں تبھی میں نے کسلمندی سے بیوی سے کچھ جملے کہے، جسے وہ کئی بار سن چکی تھی۔ وہ جملے کچھ ایسے تھے
میں اپنے شہر جانا چاہتا ہوں۔
میں اوب گیا ہوں۔
تم میری مدد کرو۔
مجھے جانے دو۔
میرا دم گھٹتا ہے
میں اس کے چہرے کو دیکھ کر بھی اندازہ لگا سکتا تھا کہ وہ بھی اوب چکی ہے، اسے بھی اپنا گھر یاد آتا ہے، وہ بھی وہاں جانے کی خواہشمند ہے تبھی ہم نے اپنی اپنی اشیاء ساتھ لیں اور اپنے اپنے راستوں کی طرف چل دیئئے جو لگتا تھا ہمارے انتظا ر میں ہیں کہ کب سے پکارتی ہیں۔
ویسے میں اپنے شہر آ کر وہ خوشی حاصل نہ کر سکا جس کی بابت میں نے یکسانیت سے بھرے دنوں میں سوچا تھا۔ محض مکان دیکھ سکا، جس کے بارے، میں نے اوپر ذکر کرنے کی کوشش کی ہے، کٹ پروا سا وقت اپنی لمبی چونچ سے کافی گہرا نشان بنا گیا تھا اور خوشی ایسی بو تھی جو سنسان راستوں پر موجود رہی ہوگی، اب ہجوم سے بھرے بازاروں میں نا پید تھی بس یادوں کی کچھ شکلیں تھیں لیکن جس یاد کے بارے میں سوچا گیا تھا کہ وہ خاص جگہ پر اپنی جسمانی شکل میں نظر آئے گی، وہاں کچھ اور اشکال تھیں۔ مکان، گلیاں، چہرے، نباتات و جمادات سب کچھ ہی بدل گیا تھا تبھی میں بہت قدیم علاقوں کی طرف بھی گیا لیکن وہاں بھی کباڑ تو موجود تھا، لیکن جسم کہیں اور منتقل ہو گئے تھے شاید انہیں اتنی جلدی تھی کہ اہنا استعمال شدہ کباڑ بھی نہ اٹھا سکے تھے۔
جس ہوٹل میں ٹہرا تھا وہاں کے کمرے زیادہ کشادہ نہیں تھے۔ کوریڈور تنگ، سیلن کی بو لیئے کمروں کی درمیانی، جگہوں پر کچھ کچھ بل کھاتے محسوس ہوتے جیسے عمر رسیدگی سے بوجھل اجسام آخری بارنظر آتے ہوں۔ ہھر بھی میں نے کچھ تو سوچا ہوگا یہ وجہ مجھ سے پوچھی بھی جا سکتی ہے کہ میں اس جگہ کیوں ٹہرا جہاں کے کمرے میری ہی طرح تنہا اور اداس ہیں تو میں بتا پاٶں گا کہ اس کے قریب سے پرانی نہر بہتی ہے جو کھڑکی سے نظر آتی ہے اور میں شام آتے ہی اس کے ساتھ دور تک بہتا جاتا ہوں، مٹیالے سے پانی سے باتیں کرتا جاتا ہوں اگر کوئی دیکھ لے تو یہ ہی سمجھے گا کوئی خبطی شخص ہے لیکن میں بے بس سا دور نظر پڑتے لکڑی کے پل تک جاتا ہوں جو نہر کے پانی کی شکل سا ہوگیا ہے۔
یہاں کوئی یاد ہے جس کا فریب آج تک موجود ہے جیسے وہی درخت جو قریب کے علاقے میں اپنے بے پناہ گھنے پن سے پہچانا جاتا ہے، پھر ایک بنچ، جیسے کوئی ٹہرا خیال، جو اسوقت سوچا گیا تھا جب اسنے اپنے گھنے بال کھول دیئئے تھے اور لاپرواہ جسم کو سمیٹا تھا، پھر اٹھ کر پل پر جا کھڑی ہوئی تھی جھاں پانی کے سانپ منہ نکالے جھانکتے تھے، گیلی گیلی جلد، جن پر دھاری دار رنگ کچھ کہتے تھے۔ چمکدار ایڑیوں نے اپنے چپل چھوڑ دیئے تھے اور وہ پانی کی کشش کو دیکھنے کے لیئے جھکی جاتی تھی۔ میں بھاگ کر اس کے قریب یوا تھا اور دیکھا تھا وہ ہنس رھی ہے اور باغ سا چہرا، ہونٹوں کے خون آلود پھول لیئے ایسے دیکھتا ہے جیسے زندہ پرند دانہ چگنے کے لیئے بیتاب ہوں اور میں اسے سمیٹنے کے لیئے بے حال کہ کہیں بدن کے موتی بکھر نہ جائیں جو اس کے بدن کا اثاثہ ہے۔۔
بنچ ویسے ہی رکھا ہے، بس یہ کہ اسے دیکھا جا سکتا ہے جب تک کے واپس نہ آیا جائے اسی بوڑھی ہوتی جاتی سی عمارت تک، جو نئی عمارتوں کے درمیان کھڑی ہے اور اپنی موت کے انتظار میں ہے۔ دور سےدیکھنے پر لگتا ہےکچھ جھریاں ہیں، پوپلا سا منہ ہے، کچھ کہا نیاں ہیں، جنہیں سنانے کووہ بے قرارہے، کہ سنا کر دفن ہو۔۔