1. ہوم/
  2. افسانہ/
  3. ڈاکٹر ارشد رضوی/
  4. نہ نظر آتی مخلوق کے ساتھ

نہ نظر آتی مخلوق کے ساتھ

شام جس طرح آئی تھی اسی طرح چھپ گئی تھی میں نے اسے آخری بار دیکھا تھا جب وہ بہت جلدی میں تھی اور اندھیرے میں خود کو جذب کرنے کی کوشش کرتی تھی پھر وہ ختم ہوگئی۔ جب وہ آئی تھی تو دُھوپ سکڑ رہی تھی، پوری سڑک پر جہاں دونوں کناروں پر مختلف قسم کے ریستوران تھے جن کے شفاف شیشوں کے اندر چھپے لوگ لگتا تھا باتیں کرتے ہیں، پرانی سیلن لیے گملے تھے جن میں مختلف شکلوں کے پودے آتی جاتی ہوا سے ہلتے تھے اور رنگ برنگے پھول راہداری پر نظریں جمائے کچھ سوچتے تھے، پھر شام آگئی تھی اور ایک حزن میں ڈوبا پیرہن یوں زیب تن تھا، گویا کوئی ملبوس میں ہے لیکن صاف چھپانے پر بھی سب کچھ دکھتا ہے، جیسے ایک بہت حسین لڑکی، جس کا پیرہن اس کے بے پناہ بولتے بدن کو چھپانے سے قاصر ہو، جیسے کوئی تلاش ہو، کہ شام کی آنکھوں میں ایک لپکا تھا جو عام طور پر لوہا پگھلاتے وقت چمکتا ہے۔

جہاں تک سورج کا ذکر ہے وہ پگھل گیا تھا اور اس کا سیال کہیں کہیں ٹھنڈا ہونے کو تھا جیسے نئی نئی عمارتوں کے درمیان جو کھنڈر ہوتی عمارت تھی وہاں اس کی چھت پر اس کا لپکا زرد کنارہ لگے کپڑے کی شال میں تبدیل ہوا تھا دیکھنے میں سب کچھ ویسا ہی تھا، یکسانیت کی جان لیوا بو پھیلی تھی، بار بار جھانکتی تھی لیکن پھر بھی اس یکسانیت میں کرداروں نے اپنا کردار بھرپور نبھایا تھا اور میں خود بھی پورا دن گزار کر ایک ایسے راستے پر تھا جہاں اب رات بال کھولے کھڑی تھی کہ شام کا سحر خاموشی سے کہیں چھپ گیا تھا، اور سڑک کے اطراف چمکتی دوکانیں ستاروں کی طرح دکھتی تھیں، میرا دن جس تلاش میں گزرا تھا وہ لاحاصل تھی، محض آتے جاتے لوگوں کے چہروں پر مختلف احساسات تھے، کچھ چہروں کو میں نے غور سے دیکھنے کی کوشش بھی کی تھی، کچھ کو واجبی طور پر، لیکن ایک چہرا ضرور ایسا تھا جسے میں نے غور سے دیکھا تھا، مجھے شک گزرا تھا، یہی وہ چہرہ ہے جو ایک دن بھاری پردوں کے پیچھے کھوگیا تھا اور جس کی تلاش میں مَیں یوں مارا مارا پھرتا ہوں، کافی غور سے دیکھنے پر مجھے احساس ہوا تھا کہ وہ چہرہ نہیں کہ ویسی آنکھیں جواس چہرے پر رکھی تھیں، شاید کسی چہرے پر ہوہی نہیں سکتیں اور وہ ہونٹ جس کے ٹپکتے شہد کا میں شیدائی تھا، کسی چھتے میں بن ہی نہیں سکتا، پھر بھی میں نے چہرے کو غور سے یوں دیکھا کہ وہاں جو ایک رُکی ہوئی ہنسی تھی، اس کی کچھ شباہت اس چہرے جیسے تھی اور آنکھوں میں کچھ ویسا ہی سونا پگھل رہا تھا جو مجھے یاد رہ گیا تھا۔

"ایسا مجھے بتایا گیا ہے کہ جب میں چھوٹا تھا جب بھی میری آنکھوں میں حیرت کا کوئی لپکا تھا جیسے کسی نادیدہ شے کی تلاش ھو جو مجھے سارا دنن تڑپا ڈالتی مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ رات رات بھر جاگا کرتا تھا اور آسمان کو دیکھا کرتا جس میں رنگ برنگے جانور ادھر ادھر پھدکا کرتے، چاند کی روشنی میں یہ سب کچھ واقع نظر آتا خود چاند بھی شکلیں بدل بدل کر آسمان کی نیلاہٹ میں یوں چمکتا جسے گھرے پانیوں میں کچھ ہو اور انہیں چھونے کی خواہش اکساتی ہو، پھرایک دن میں نے ایک چہرہ دیکھا، اس چہرہ میں کچھ ایسا نمک تھا جسے بیان کرنا ممکن نہیں تھا، شاید بھاری برہنہ آنکھیں یا گناہ پر اکساتے بہت بھاری ہونٹ یا موٹے پھن والی گھنی لٹ جو گالوں پر ٹھہری رہتی، وہ دن عام سا دن تھا، سامنے کی بالکونی پر جو پردے پڑے تھے وہ ہوا سے ہلتے تھے کہ اچانک وہ چہرہ سامنے آگیا مجھے نہیں معلوم اس چہرے کا جسم کیسا ہوگا، کسی پُراسرار گھنے جنگل سا یا پھر صحرا میں دھوکا دیتے سراب، مجھے کچھ معلوم نہیں تھا، ایک چہرہ تھا، جس کی چھب نے کچھ کھوجنے کی طرف اکسایا تھا یاد ہے وہ تیز دُھوپ تھی جو پیر جلاتی تھی اور لُو تھی جس کے چلنے سے پردہ مچلتا تھا، وہاں اور بھی کچھ تھا اب یاد کروں تو کسی مصور کی بنائی ہوئی تصویر یاد آتی ہے جو دیوار پر مردہ ٹنگی تھی، پھر وہ چہرہ ہٹ گیا تھا اور سب کچھ مر سا گیا تھا، دوسرے دن زیادہ بھاری پردے ڈالے گئے تھے جو ہوا سے نہیں ہلتے تھے، بس ٹھہرے ہوئے، جن پر سرخ گہرا رنگ چمکتا تھا"۔

راستے میں نے اس چہرے کو دیکھا تو وہ شرماگیا، شاید اسے اچھا لگا ہو، لیکن یوں دیکھتا میں آگے بڑھ گیا کہ اس چہرے کی آنکھیں دو ناچتے مور تھے، اداس ہونٹوں پر شام سایہ کیے تھی، یہ شام کے بعد کی آتی رات تھی، سارا دن تلاش میں گزرگیا تھا، جس جس جگہ سے گزرا تھا وہ مایوس حد تک بیکار ہوتی چلی گئی تھی، دل میں جو درد تھا موت سے ہمکنار کرتا دیکھائی پڑتا تھا، آگے مخصوص راستے تھے، جن سے میں واقف تھا تو میں ان راستوں پر آگیا جو اب اندھیرے میں ڈوبے تھے، پھر مکان تھے جن کی چھتیں تھیں، ادھر آسمان تھا جہاں وہی مخصوص تماشا لگا تھا، زمین اور آسمان کے درمیان روحیں بھٹکتی تھیں۔

کچھ چیختی تھیں، کچھ بال کھولے ہنستی تھیں، بال کھولنے سے مجھے یاد آیا وہ گھنے موٹے بال بندھے رہا کرتے تھے، تبھی وہ چہرہ کافی دور تک نظر آتا تھا اور سفاکی کے پھیلے احساس میں مسکرادینے کی خواہش چھپی تھی، اب میں جس راستے پر تھا وہ تاریک تھا، کچھ جھاڑیوں نے مجھے روکا تھا، جس میں سارا دن کے تھکے جھینگر بولتے تھے۔ کچھ وقت لگا جب میں غیر اِرادی طور پر اپنے گھر پہنچ گیا تھا، اندر کچھ لوگ میرے انتظار میں تھے ان کے پاس میرے لیے کچھ سوال تھے۔

کچھ گڈمڈ، کچھ غلط صحیح سوال تھے، جھریوں کے گنجلک کے پیچھے سے جھانکتا میری ماں کا چہرہ تھا اور لرزتے ہاتھ تھے، میں نے اس کی آنکھو ںمیں بہت جلد آجانے والی موت کی کچھ ایسی چاپ کو سنا جیسے گھنے جنگلوں میں دور سے بہتی ندی کی آواز آتی ہے، پھر میں نے اس کی بڑھیائی آواز سنی، وہ میرے بارے میں پریشان تھی۔ مجھے اس پر شدید پیار اور ترس آیا اور میں نے اسے بتایا کہ میں کسی نئی سڑک پر نکل گیا تھا، جہاں بہت سے چہرے تھے لیکن وہ چہرہ نہیں تھا جس کی تلاش میں، میں اس سڑک پر گیا تھا، اس نے مرجھاتی آنکھوں سے میری بات کو سمجھنا چاہا، جب وہ اپنے کمرے میں سیدھی لیٹ چکی تھی اور گہرے گہرے سانس لیتی تھی۔

گھر میں اور بھی لوگ تھے جنہیں مجھ سے خاص سروکار نہیں تھا۔ میں نے ایک نظر اپنے مرے ہوئے باپ کی ٹنگی تصویر کو دیکھا اور پھر ان سیڑھیوں کی طرف جو میرے کمرے سے جڑی تھیں، کمرے میں گہری تنہائی تھی، تنہائی میں کچھ ایسا تھا جو مجھے دیکھ کر چھپ گیا تھا۔ شاید کوئی نہ نظر آتی مخلوق تھی جس کے سانس صاف سنائی پڑتے تھے، ایک کونے میں آئینہ جڑا تھا جس میں میں نظرآتا تھا، چہرے پر کچھ نہیں تھا محض کچھ نہ ملنے کا ملال تھااور آنکھیں بجھی ہوئی موم بتیوں کی طرح مرجھائی پڑی تھیں، لیکن مجھے یہ ضرور معلوم تھا کہ رات ہے اور نیند پر اکساتی ہے، نیند جو سب پر پردہ ڈال دے گی محض خواب ہوں گے، جن کا تعبیر سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔

سونے سے پہلے میں نے نیند کو خود پر حاوی ہوتے محسوس کیا، اور اس ان دیکھی مخلوق کو جو اب بھی کمرے کی تنہائی میں سانس لیتی تھی۔ یہ بہت دنوں سے میرے ساتھ رہ رہی ہے، جب میں کمرے میں موجود نہیں ہوتا یہ کمرے کے اندر رکھی اشیا کی ترتیب بگاڑ دیتی ہے جیسے ایک بار میں نے اپنی پسندیدہ کتاب کو جسے میں سرہانے رکھتا ہوں تیز ہوا میں رکھے دیکھا تھا اور اس کے صفحے پھڑپھڑاتے تھے، سونے سے پہلے مجھے پھر وہ قدیم مکان یاد آیا جس کی سیڑھیوں کے قدمچے چھوٹے اور بل کھاتے اوپر کی طرف جاتے تھے جہاں کمرہ تھا جس پر دبیز پردے پڑے تھے، یہ پردے بدلے گئے تھے، پہلے تو ہلکے ریشمی پردے تھے جو ہوا کے آجانے سے ہلتے تھے جہاں اندر کوئی ادھر ادھر چلتا دیکھائی دیتا تھا۔ پھر بھاری پردے ڈالے گئے جنہوں نے سب کچھ چھپالیا تھا۔

میری بڑھیاتی ماں نے ہی بتایا تھا اب اس مکان میں کوئی نہیں رہتا، بہت پہلے کچھ لوگ رہتے تھے جو ایک ایک کرکے مرتے گئے، میری ماں نے یہ بھی بتایا کہ جب میں بچہ تھا اس مکان میں جایا کرتا تھا، نیچے کے کمروں میں زیادہ تر مرد تھے، ایک بوڑھا بیمار شخص تھا جو رات رات بھر کراہتا تھا، اوپر کے حصے میں ایک شادی شدہ جوڑا رہتا تھا اور وہ عورت جب بیاہ کر آئی تھی پوری گلی روشن ہوگئی تھی کہ اس کے چہرے پر کچھ چمکتا تھا، پہلے بوڑھا شخص مرا، پھر باقی مرد اور ایک دن سنا وہ چمکتے چہرے کی عورت کسی کے ساتھ بھاگ گئی۔ اس کے بھاگ جانے کے بعد اس کا مرد پاگل ہوگیا، وہ اپنی عورت کو پکارا کرتا کہ اس کے چلے جانے سے پورا مکان اندھیرے میں ڈوب گیا تھا، میں ماں کی باتیں سن کر حیران ہوا تھا کہ میں نے تو ایک دن اس کمرے کو چمکتے دیکھا تھا اور ایک چہرے کو جس میں خواہشات کی دراڑیں تھیں اور بے اندازہ گہری ہوتی نظر آتی تھیں۔

"ہوسکتا ہے کوئی خواب ہو" ماں نے کہا تھا۔

"خواب؟" تو کیا میں کسی خواب کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہوں"۔ میں بڑبڑایا تھا اور بے یقینی کی حالت میں باہر نکل گیا تھا۔ جہاں بہت سی سڑکیں میرے انتظار میں تھیں، لیکن میں نے ایک سڑک کا انتخاب کیا تھا جہاں زیادہ لوگ نہیں تھے اور دُھوپ درختوں سے اترتی تھی، یہ وہی دُھوپ تھی جس کے پیر اجلے اجلے تھے، اب زمین کی کھردری سطح پر چلنے سے زخمی ہوتے نظر آتے تھے، تبھی جگہ جگہ لہو کے نشان تھے جن پر جلدی میں ختم ہوجانے والے رنگ تھے۔

میرا ارادہ سمندر کی طرف جانے کا تھا جو جھاگ اڑاتی لہروں سے بھرا پڑا ہے اور جسے دیکھنے شہر کے لوگ جاتے ہیں، ہوسکتا ہے وہ بھی سمندر دیکھنے نکل گئی ہو، اور وہ مرد بھی اس کے ساتھ ہو جس کے ساتھ وہ اپنے شوہر کو چھوڑ کر بھاگ گئی تھی۔ ہوسکتا ہے اب وہ بے قرار نہ رہی ہو اور خوش ہو کہ چہرہ اور چمکتا ہو، تو میں ان راستوں کی طرف گیا جو سمندر کی طرف جاتے تھے اور مچھلی کی بو ان راستوں پر پھیلی تھی، وہاں اجسام تھے جو پھٹی پھٹی آنکھوں سے سمندر کو دیکھتے تھے، سمندر بے قرار تھا، لہریں دُھوپ کی چمک کا تاج سجائے ساحل تک آتی تھیں، ساحل پر بیٹھے اجسام مختلف اعضاء پر مشتمل تھے، عورتیں اور مرد اپنے اپنے اعضاء کو لیے لہروں کی کشش کا باعث بنے تھے، یہ نہ نظر آتی کشش ان کے جسموں پر چپکی تھی، یہ ایسی ہی تھی جیسے میں اپنے کمرے میں کچھ نادیدہ سانس لیتی مخلوق کو چھوڑ آیاتھا۔

میں یوں ہی سب کچھ دیکھتا تھا کہ میں نے ایک مرد کے ساتھ ایک عورت کو دیکھا وہ دونوں سمندر کو دیکھ رہے تھے، عورت کے بال بھاری اور گھنے تھے، اور وہی مخصوص سمندری نمک سے اٹی ہوا انہیں اڑاتی تھی، پھر جسم تھا جس میں غضب کی لپک تھی، بھاری ہوتے بدن میں رات کو نکلے موتیائی پھولوں کی باس تھی، اس کا چہرہ ادھر تھا تبھی ایک انجانی خواہش نے سر اٹھایا کہ میں اس کا چہرہ دیکھوں جو سمندر کی طرف دیکھتا تھا اور بدن کے پچھلے حصے میں چھوئے جانے کی خواہش ہنہناتی تھی، تبھی مجھے جانا پڑا، اس کے چہرے کی طرف جس کی آنکھیں سمندر کی لہروں کے پاگل پن میں الجھی ہوئی تھیں میں نے غور سے دیکھا، یہ وہ برہنہ آنکھیں نہیں تھیں، نہ وہ بھاری ہونٹ تھے جو دور سے دِکھائی دیں، ہاں ان ہونٹوں کے کنارے پر ایک تل چمکتا تھا تو میں نے واپس جانے کی ٹھانی، کہ اب سمندر کے کنارے پر میرے لیے کچھ نہیں تھا۔ سڑک کے اس طرف عمارتوں کی ایک قطار تھی، بالکونیاں تھیں، جن کے چہروں پر بھاری پردے پڑے بڑی بے رحمی سے اندر ہونے والے واقعات کو چھپائے ہوئے تھے۔

آج بھی مجھے سارا دن مختلف سڑکوں پر گزارنا پڑا، جو دُھوپ میں جل کر بڑا ہوا تھا، میں سایہ سایہ چلتا رہا، وہ سائے جو عمارتوں اور درختوں نے تخلیق کیے تھے، آسمانی سورج تمازت کے خمار میں مغرور نظر آتا تھا، پھر بھی چلتا رہا، یہ چلنے کی عادت مجھے مختلف جگہوں سے گزارتی رہی، ایک جگہ دیکھا بے اندازہ شور ہے۔ میں ڈر گیا کہ شور مجھے خوفزدہ کردیتا ہے۔ تبھی میں نے بے اندازہ شور کی جگہوں سے جڑی ایک تاریک گلی دیکھی جس میں اندھیرا تھا، وہ منہ کھولے میری طرف دیکھتی تھی۔

اس کی شکل کسی بیمار لومڑی کی سی تھی، یہ میرے گھر کی اور جاتی ہے، کیونکہ اسے عبور کرکے میں اس سڑک پر آجاؤں گا جس سے میری شناسا گلیاں جڑی ہیں اور ایسا ہی ہوا ممکن ہے کچھ مشکل لگا ہو، لیکن دیکھا گیا تھا کہ اندھیرے میں زرد زرد روشنی جھانکتی تھی اور راستہ دیکھاتی تھی، دیکھتا ہوں راستے پر گھر کھڑا ہے اندر وہ بڑھیائی ماں بیٹھی ہے جس کی آنکھوں میں صحرائی ہوا سر پٹختی ہے، باقی سب لاتعلق ہیں، سیڑھیوں کے قدمچوں پر آتا اندھیرا پر پھیلائے دیکھتا ہے۔ پھر اداس کمرہ ہے، مجھے پہچاننے کی کوشش کرتا ہے، اندر کہیں کچھ آوازیں ہیں، باہر سے محسوس ہوتی ہیں، اندر آتا ہوں در چیختا ہے، دیکھتا ہوں اندر کچھ بھی نہیں، بس اشیا ادھر ادھر بکھریں ہیں اور جو اندر تھے کہیں ادھر ادھر چھپ گئے ہیں۔