1. ہوم/
  2. افسانہ/
  3. ڈاکٹر ارشد رضوی/
  4. سیلن اور سمندری بارش

سیلن اور سمندری بارش

ملاقات ایک اچانک رونما ہونے والے واقعے کی دلیل ہوتی ہے۔ کچھ ایسا جو پہلے سے نہ سوچا گیا ہو لیکن وہ ہو جائے۔ کچھ ایسا ہی ہوا جب زمین کے ایک خاص حصے میں ملاقات ہوئی۔ یہ ایک مرد اور عورت کی ملاقات تھی جنہیں ایک بار ملنا تھا ویسے ابھی کہنا جلد بازی ہوگی کہ شاید پھر ملا جائے اگر عمر موقعہ دے سکے۔ عمر تو کسی وقت بھی ساتھ چھوڑ سکتی ہے۔ آنکھوں پر ہاتھ رکھ سکتی ہے۔ ویسے اس وقتی ملاپ کی وجہ کچھ تو تھی، پہلےسے دیکھا کوئی خواب، اچانک سے آتی بارش کی گیلی آواز یا پھر دونوں کے مختلف پٹھوں کے کینوس پر تراشیدہ جسم، جو اپنی اپنی تنہائی کے جال سے نکل کر سڑکوں تک آ گئے تھے۔ ہو سکتا ہے وہ بھی تنہا ہو؟ لیکن وہ تو دیکھنے میں بازاری عورت لگتی تھی، اسے دیکھ کر کچھ ایسا ہی خیال آیا تھا، لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے روحانی طور پر اندر سے خالی ہو، ورنہ تو شام سے لیکر صبح تک جاگنے کے لیئے بنی تھی اور ہر قسم، عمر کے مردوں کے ساتھ اپنا جسم بانٹا کرتی تھی، پھر جگہ جگہ بکھرا سامان سمیٹ کر ساتھ لے جاتی تھی۔

میرے نکلنے کی وجہ کہانی تھی، جو مجھ سے روٹھ کر سمندری لہروں تک گئی پھر واپس نہیں آئی تھی۔ وہ کسی بات سے ناراض ہوئی تھی شاید ادھورے پن سے اوب گئی ہو کہ لکھتے لکھتے صفحے کم پڑھ گیئے تھے اور وہ بے صبری، مکمل ہونا چاہتی تھی۔ ہوا یوں تھا میری آنکھ دوپہر میں کسی خواب سے ڈر کر کھلی تو یاد آیا کہ رات بھر کچھ لکھتا رہا تھا لیکن کیا دیکھتا ہوں صفحے خالی ہیں اور وہ نہیں ہے، لگتا تھا صبح کےکسی خاموش لمحے میں اس نےدر کھلا دیکھا اور موقع پا کر دبے پاٶں، ان کناروں کی طرف نکل گئی جو دور تک پھیلے نظر آتے ہیں، پھر واپس نہیں آئی میں سمندر کے ساحلی علاقوں پر بھی گیا جو لہروں سے باتیں کرتا مصروف نظر آیا، کچھ بستیوں تک بھی، اسے آوازیں دیتا پھرا، جہاں مچھیروں کی عورتوں نے مجھے پاگل سمجھا کہ میں ننگے پاٶں ہی نکل آیا تھا، آنکھوں میں دید کی ایسی خواہش لیئے، جس کا تعلق کہانی کی بے وفائی سے تھا اور اسی تلاش میں بھٹکتا شہر تک آگیا تھا۔ حالانکہ مجھے یہ شہر بالکل بھی پسند نہیں کہ شور مارے ڈالتا ہے۔

شاید کہانی کی تلاش میں ایسا ہوا اور سوچنے لگا کہ "کہانیاں بھی تو بازارو ہی ہوتی ہیں نجانے کن کن ہاتھوں سے ہوتی ہوئی، کیسی کیسی جگہوں پر موجود نظر آ سکتی ہیں" ساحل پر، زنگ آلود ختم ہوتے جہاز کے سنسان عرشے پر، کسی ویران جگہ پر، سڑک کے کنارے، باغ کے کسی گھنے پراسرار اندھیرے میں، کسی درخت سے لٹکی ہوئی یا بوسیدہ ہوئے جاتے چہروں پر، کسی کے انتظار میں جو انہیں اپنا لے، کوئی کہانی کار جو زرد ہوئی جاتی سطروں میں لہو بھرے۔

ایساہی کچھ سوچ رہا تھا، تبھی اسے دیکھا۔ وہ کسی کے انتظار میں تھی، جو شاید نہیں آیا تھا شاید راستہ بھول گیا ہو یا کسی دوسری سڑک پر اسے کوئی مل گیا ہو وہ اب بادلوں سے پریشان سی، چپھا آسمان دیکھتی تھی، جو بس برسنے کو تیار تھےکہ میں اسکے سامنے آگیا، ایسے ہی جیسے دوسرے لوگ، اسکی نظروں میں آجا رہے تھے۔ اس نے تھوڑی دیر کسی شخص سے مسکرا کر باتیں بھی کیں تھیں۔ کچھ پیسوں کے بارے جو طے نہیں ہوا تبھی آسمان پر شور برپا ہوا تھا اور بارش ہونے لگی تھی۔ جس سے اسے خیال گزرا تھا کہ شاید آج وہ خالی ہاتھ گھر جائے گی۔۔

پہلا منظر

وہ مجھے دیکھ رہی ہے آنکھیں دور تک پھیلی ہوئی، گالوں کو چھو رہی ہیں، گلاس خالی خالی پن کی بوریت کا عذاب لیئے دیکھتے ہیں اور رات آنے کو ہے۔ ہو سکتا ہے یہ ایسی رات ہو جسمیں، جسم خالی ہو جائیں اور ہڈیاں، ماس کے ساتھ گزرے وقت کی بساند لیئے بجھی ہوئی موم بتیاں دکھنے لگیں۔۔

ابھی موم بتیاں جل رہی ہیں اور میری خاموشی کی عادت نے اسے پریشان کر رکھا ہے۔ ویسے جب وہ بھیگی بھیگی شام میں ملی تھی تروتازا تھی، وہیں جہاں کچھ کیچڑ کے دھبے تھے، وہیں کھڑی کسی گاہک کی تلاش میں آنکھیں مٹکاتی تھی، مادہ پرست سی، آنکھوں میں ایسی تلاش کی بنت تھی جسے پروں والے کیڑوں سے مشھابہت دی جا سکتی ہے جبکہ بھاری ہونٹوں کو کھدر سے، جنہیں نازک اندام جسم نے پہن رکھا ہو۔۔

میں اس دن کچھ زیادہ ہی اداس تھا۔ ایک لکھاری سا، جس کی کہانی بے وجہ روٹھی ہو اور اب کسی گپھا میں جا چپھی ہو۔ مجھے بہت دنوں سے نیند نہیں آرہی تھی، جیسے کسی شئے کے گم جانے کا دکھ مارے دیتا ہو بس اس دن زرا دیر کو آنکھیں بند ہوئیں تھیں کہ وہ آوارہ خصلت، نکل بھاگی۔ یہ بات میں نے اس سے کہی جب اس نے مجھے ایسے دیکھا جیسے بلیاں اپنی اداس اور ندیدی آنکھوں سے دیکھتی ہیں

"میری کہانی گم گئی ہے"

"کہانی، وہ ہنسنے لگی

وہ بے شرم، سانس لیتی مادہ، جو جگہ جگہ سے ادھڑی تھی، چہرے کی سطح کو سستے سے رنگوں سے چھپائے تبھی مجھے شائبہ سا ہوا تھا یہ وہی ہے اور اب ایسی عورت کے روپ میں ہے، جس کے بدن پر استعمال شدہ اشیاء کا بوجھ رکھا ہے جیسے کباڑیے کی دوکان ہو۔ پھر مجھے خیال ہوا میں غلط سوچتا ہوں کہ کہانی کی مخصوص بو کو میں نے ساحل کے قریب ایک شکستہ سے نظر آتے منظر کے پاس محسوس کیا تھا "کیا کہانی یہاں آئی تھی" بس ایسے ہی پوچھ لیا یہ سمجھتے ہوئے بھی کہ اسکے پاس کہانی کے بارے سوچنے کا کہاں وقت ہوگا اور ویسے بھی وہ میرا سوال نہ سمجھ پائی تھی بھر بھی ساتھ ساتھ چلنے لگی تھی اور میری آنکھوں کو دیکھتی تھی جہاں رتجگوں کا زنگ، سرمئی بادلوں سا رکھا تھا۔۔

"تمہاری آنکھوں کو کیا ہوا" اس نے پوچھا

"نیند کو اپنا نہیں رہیں"

"بہت دن ہو گئے"

"یہ بیماری مجھے بھی ہو چکی ہے"

"اب تو کہیں بھی سو جاتی ہوں"

"ایکبار تو گاہک کے ساتھ رات گزارنے کے بعد، نیچے اترتی سیڑھیوں پر ہی سو گئی"

"جہاں ہر کوئی آتا جاتا رہا لیکن میں سوتی رہی اور اٹھی تو دیکھا کوئی کپڑے ہی اتار کر لے گیا ہے"

"وہ تو ایک نیک باز عورت نے اپنے کپڑے دیئے تو گھر پہچی"

"کافی تنگ گلیاں ہیں، جہاں میرا مکان ہے" وہ متواتر بولتی رہی جیسے گنوار سے علاقے کی ہو

میں نے اسکی آنکھوں کو دیکھا جہاں جھینگر بولتے بولتے سو چکے تھے، صرف دیکھنے کی حس زندہ تھی اور اس جگہ کو ڈھونڈھتی تھی جہاں اسے جانا تھا۔

ہم سمندر تک گئے، پھر لہروں کے ساتھ چلے، پھر ایک جگہ بیٹھ گیئے تھے۔ وہ سنولائے بدن کی عورت تھی، متناسب پٹھوں والی لیکن جواشیاء اسے دوسری عورتوں سے ممتاز کرتی تھیں، وہ بے نیازی تھی یا پھر اسکا سینہ جو سانس کے آنے جانے سے، سمندری کشتیوں سا، لہروں کے سپرد تھا

"ہمیں جانا کہاں ہے" اسنے پوچھا تھا

میں نے اسے اشارے سے دور نظر آتے سیلن زدہ مکانوں کا بتایا تھا جو اپنی اکھڑی ہوی جلد کے باعث پراسرار نظر آتے تھے

"انہیں میں ہے، وہ جو آگے نکلا نظر آتا ہے"

اسنے دیکھا، مکان بے رحم تنہائی کا شکار تھا

"وہ تمہاری ہی طرح تنہا اور جاگا ہوا نظر آتا ہے" اور بال سنوارنے لگی جو بھاری پانی کی طرح سست روی سے سنور رہے تھے تبھی وہ کمر پر کیکڑوں کی طرح سرکنے لگے۔ میں نے اسکا ہاتھ تھاما اور چلنے لگے۔ میں نے محسوس کیا کہ اسکا ہاتھ بے حد ٹھنڈا ہے کسی برف کی قاش سا، یا ٹھنڈے سالن سا جما ہوا۔ میں نے پوچھا بھی، تو ہنسنے لگی، میلے دانتوں کے ساتھ اور بولی

"بچپن سے ہی یخ ہیں۔ جب میں بازار میں بکی تو سب مجھے یخ ہاتھوں والی کہہ کر پکارتے تھے"

"بہت سے گاہک تو ڈر جاتے"

"ہاں ایک تھا، جس کے ساتھ لپٹ کے سوئی تو انگلیاں، ہاتھ، بازو دہکنے لگے۔ وہ روز آیا کرتا پھر مجھے ڈر لگنے لگا کہ اگر کسی دن وہ نہ آیا تو میں تو ٹھنڈ سے مر جاٶں گی اور ایسا ہی ہوا وہ کسی اور کا اسیر ہوگیا اور میں پھر سے یخ ہوگئی لیکن مری نہیں"

"کئی مرد آئے، جسم کو استعمال کرتے، چلے جاتے"

"اس جیسا کوئی نہیں تھا" وہ بولے جا رہی تھی

"لیکن اب ان پرانے علاقوں میں کوئی نہیں آتا، ہاں کبھی کبھی علاقے کے پولیس والے آجاتے ہیں"

"خونخوار جانور سے، ماس نوچ نوچ کر کھاتے ہیں"

میں نے دیکھا اس کی گردن پر کچھ سوکھے ہوئے کھرنڈ تھے جیسے بجھے ہوئے انگارے۔ وہ کچھ اور بھی بولتی لیکن اب مکان قریب آگیا تھا اور میرے ساتھ کسی کو دیکھ کر حیران تھا۔ شروع ہوتے ہی دالان تھا جسکے نبادات اجڑے ہوئے، خاموش تماشائی بنے یوں دیکھتے تھے جیسے خودکشی پر آمادہ کرتے خیالات، شام سے ہوتی بارش ان سے ہمکلام نہ ہوئی تھی۔ راہداری کمروں تک تھی پھر ایک چرچراتا دروازہ جو کھلا، تو منہ کھولے ایسے دیکھا جیسے ہڑپ کر جائے گا۔ وہ مختلف اقسام کی جگہوں پر جاتی تھی تبھی اس جگہ کو دیکھ کر اس نے بے نیازی برتی، محض ایک نظر کمرے کو دیکھا جہاں ایک پلنگ تھا، دیوار پر ایک تصویر یا پھر کھڑکی، جو ایسے دیکھتی تھی، جیسے عام طور پر گونگے دیکھتے ہیں۔۔

مجھے یاد آیا میرے پاس کہیں، دیسی شراب کا پوا ہے جسے ڈھونڈنے میں دوسرے کمرے میں گیا۔ واپس آیا تو وہ کسی حاجت کے تحت، بیت الخلا جا چکی تھی لیکن جلد ہی واپس آگئی

"اندر بہت گندگی ہے، زیادہ دیر ٹھہرتی، تو مجھے قے ہو جاتی"

"تم کب سے ایسے رہ رہے ہو"

"کیا کوئی بھی تمہارے ساتھ نہیں"

میں خاموش رہا اور گلاس میں شراب ڈالنے لگا

"مجھے بھوک لگی ہے کچھ کھانے کو مل جائے تو اچھا ہو"

مجھے خیال آیا کہ راستے میں کھانے کی اشیاء میسر تھیں جب ہم سمندری بو سے بچ کر سڑک تک آئے تھے

"تو کیا میں کچھ لے کر آوں یا شراب سے ہی پیٹ بھر لیں؟"

"میں شراب نہیں پیتی"

"تیزابیت کا شکار ہوں"

"سچ کہوں تو بیمار رہنے لگی ہوں"

"شراب نہیں پی سکوں گی"

مجھے اندازہ نہیں تھا وہ ایسا کہے گی کہ اس کی آنکھیں تو شراب کی رنگت سے بھری نظر آتی تھیں، ایسی شراب جسے عام طور پر کھجوروں سے کشید کیا گیا ہو، کناروں پر سوجن تھی تبھی میں نے اپنا گلاس خالی کیا اور محسوس کیا کہ بارش ہونے لگی ہے۔ چھت اور کھڑکی پر اسکی آواز کسی جنگلی باس سی پھیلتی محسوس ہو رہی ہے ویسے بھی سمندری ہوائیں دروازہ بجا رہیں تھیں کہ توڑ کر اندر آجایئں

"کچھ کھانے کو لے آٶں؟" میں پوچھتا ہوں

وہ سر ہلاتی ہے پھر بولتی ہے

"کچھ بھی لے آٶ"

"میں زیادہ دیر بھوکی نہیں رہ سکتی"

میں باہر نکل جاتا ہوں۔ باہر جہاں جھاگ اڑاتا سمندر ہے، بارش ہے اور سڑک جسکے ساتھ ساتھ مٹی کی اندھیری قبریں دیکھائی دیتی ہیں۔۔

دوسرا منظر

وہ پلنگ پر لیٹی ہے۔ بادلوں کے شور سے ڈری ڈری، اسکے ہاتھ ابھی بھی سرد ہیں۔ جاتے ہوئے شخص کے بارے میں سوچتے ہوئے، اسنے کچھ سوچا ہے، کچھ ایسا جو اسنے کسی گاہک کے بارے نہیں سوچا۔ " وہ خوابوں میں بسی آنکھوں، گھنے مگر بکھرے بالوں اور بہت اداس چہرے والا اجنبی شخص ہے، اسے دیکھ کر اس پر پیار آسکتا ہے۔

وہ کچھ ایسا ہے، جیسے باقی مرد نہیں کہ اسکے جسم سے کچھ ایسی مردانہ بو آتی ہے جو راستے میں ملنے والے مخصوص گیلے درختوں کی چھال سے آتی ہے۔ اسکے ساتھ گزرا وقت خوف اور وسوسوں سے خالی تھا۔

وہ دوسر ے کمرے میں بھی گئی۔ اسنے دیکھا کمرہ، کتابوں سے بھرا ہے۔ اوپر نیچے رکھی کتابیں گرد، سیلن سے بوجھل، درمیانی جگہ جو ابھی خالی دیکھائی دیتی ہے، وہاں کچھ لکھے کچھ ان لکھے صفحے، پیپرویٹی بوجھ تلے دبے، جیسے اس کا انتظار کر رہے ہیں، وہ دیکھتے ہی لکھاری لگتا ہے، بے انتہا کھویا ہوا اور ہشیار۔

اگر اسے کسی جانور سے تشبیہ دی جائے تو وہ خاکی رنگ کا بھیڑیا دیکھائی پڑتا ہے بے چین اور جمائیاں لیتا ہوا، اس کا سنولایا جسم، ھاتھ سینکنے کو کافی ہے اور اگر اس سے لپٹا جائے تو شآید سب کچھ جل جائے ایسے جیسے جنگل میں آگ بھڑک اٹھتی ہے۔

وہ سوچتے ہوئے پھر اسی کمرے میں لوٹ آئی اور اس کا انتظار کرنے لگی۔ جہاں محض تنہائی تھی یا کبھی کسی جھپکلی کی آواز آتی، جیسے اسکے پاس کہنے کو کچھ ہو۔۔

تیسرا منظر

کافی بارش تھی۔ اس نے ایسی بارش کم ہی دیکھی تھی جو اسے بگھوئے دیتی تھی لیکن وہ دورتک نکل آیا اور اس کے بارے سوچنے لگا، اس کا بدن پر پیچ ہے۔ جنگلوں میں اترتی پگڈڈیوں سا یا ان سانپوں سا جو گہرے تاریک کنواں میں لٹکے رہتے ہیں۔

اسکے ہونٹوں پر شدید خواہشات کا انبار لگا ہے اور چہرے کے نقوش پرانے زمانے کے کسی مصور کے ترتیب دیئے زنگ آلود رنگ ہیں۔

ایک کھلا در، دور تک نظر آتی بے شرم کھمبیاں، دیر تک سنائی دیتی کونج کی کرلاہٹ، اور سمندری نمک سے بھاری ہوا جاتا سینہ۔

"اسکے شانے کی دونوں ھڈیوں پر تل ہیں، تراشیدہ بھنویں کسی زہریلے لہریئے سی، نمایاں مگر آنکھوں سے کچھ کہتی ہوئی"

"جسم بھرے ہوے جام سا، کمر سے نیچے کچھ خاص دائرے بناتا بھاری پن، جیسے شادی شدہ عورتیں دیکھائی پڑتی ہیں"

اس نے کسی کے بارے میں ایسا کہاں سوچا تھا یہاں تک کہ وہ ایک ڈھابے تک ا گیا جہاں کھانے کو کچھ تھا جسے لیکر وہ واپس ہوا۔ واپسی کا کواڑ کھلا تھا وہ تیز تیز چلتا سیلن زدہ مکان کی طرف چل پڑا جہاں ایک عورت اسکے انتظار میں تھی۔

اسے واپس آنے میں دیر ہوئی کہ تیز بارش نے راستے دھندلا دیئے تھے لیکن وہ پہنچ ہی گیا۔ اندر وہ تھی، اسے دیکھتی تھی۔ بال کھلے تھے، بھاری سینے پر میلی ہوئی جاتی سفید انگیا تھی اور ایک کشادہ سی چادر جسے اسنے ناف کے نیچے تک باندھ رکھا تھا دور تک اترتی ناف جیسے کوئی آنکھ دیکھتی ہو پھر پیر، ٹخنے اور زرد سی پنڈلیوں کا نچلا حصہ نظر پڑتا تھا، ویسے جب وہ دونوں ملے تھے شام کے درمیانی حصّے میں، اسکا استعمال ہوا سینہ دیدنی تھا۔ لیکن ناف کنواری تھی جسے اب دیکھا گیا۔ پہلی بار ملنے کا وقت سوچا جائے تو وہ "سڑک کے کنارے کھڑی ہے اور سرخ ہونٹوں کے جادو سے موسم کو تبدیل کرنے کی کوششوں میں ہے۔ اسے یہ بھی یاد آیا اسکے پٹھے متنا سب تھے، پھر بے نیازی جس کا زکر پہلے کیا گیا"۔

شراب ویسے ہی رکھی تھی صاف ظاہر تھا وہ شراب نہیں پیتی لیکن کھانے کو دیکھ کر جو اچھا خاصہ بھیگ چکا تھا، ندیدوں کی طرح کھانے لگی

"بس یہی مل سکا"

"باہر کافی بارش تھی"

"ہاں وہ چھت پر بول رہی ہے اور کھڑکی کے پٹوں پر" اس نے ایسے کہا جیسے اسے بارش سے الجھن سی ہو رہی ہے، وہ بار بار چھت کی طرف بھی دیکھتی، کسی خوف کے تحت پھر وہ لپٹ گئی۔ میں نے اپنی کمر پر اسکے دہکتے ہاتوں کو محسوس کیا جن کے بارے میں مجھے معلوم ہوا تھا کہ وہ سرد ہیں، شاید میرا خیال ہو؟ لیکن اس نے خود بھی کہا تھا کہ "اسے سرد ہاتھوں والی کہہ کر پکارا جاتا تھا" لیکن وہ تو ایسے شعلے میں تبدیل ہوئی جاتی تھی جو خس و خاشاک کو جلا ڈالتا ہو۔۔

"تم جلتے ہوئے شعلے کی طرح ہو"

"تمہاری کھردری جلد، اگر کسی بیماری کا شکار نہیں تو ساری عمر کے لیئے کافی ہے"

"ھممم"

"بہت کم بولتے ہو"

"ھمم"۔

میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ تیز ہوا نے کواڑ کھولنے کی کوشش کی، بار بار تبھی مچھلیوں کی بو، سیلی ہوئی اشیاء اور مرے ہوئے کیکڑوں کی بساند کمرے میں آ کر ہم سے لپٹ گئی جس نے ہمارے اجسام منتشر کر دیئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ انتشار ہمیں کسی گہرے کنواں تک لے گیا جہاں یخ پانی میں کچھ سنپولیے تیرتے تھے جنہیں تھوڑی دیر پہلے جنم دیا گیا تھا۔۔