پھول، خوشبو، بہار کچھ بھی نہیں
وہ نہیں تو دیار کچھ بھی نہیں
کون کس پر یقین کیسے کرے؟
چاہتوں کا معیار کچھ بھی نہیں
باخدا کچھ نہیں وفا کا صلہ
دل کا یہ کاروبار کچھ بھی نہیں
کچھ نہیں ھے یہ درد کا سودا
عشق اور انتظار کچھ بھی نہیں
اب کہیں جا کے یہ سمجھ آیا
دوستی، اعتبار کچھ بھی نہیں
یہ محبت بھی کیا مصیبت ھے؟
اس میں کہتے ہیں ہار کچھ بھی نہیں
جب کوئی ساتھ ہی نہیں ھے بتول
منزلیں، رہگزار کچھ بھی نہیں