بس کر دو اب یہ خواب دکھانے، بڑے بڑے
پہچانتے ہیں، ہم، یہ فسانے، گھڑے گھڑے
دھمکا چکے ہو، تیر چلاو جو چل سکے
تنگ آچکے ہیں، لوگ، نشانے پڑے پڑے
خلقت خدا کی جان سے جانی تھی، چل بسی
اب خود ہی، جھیلنا، یہ زمانے، کڑے کڑے
ہم مرگئے، علاج پہ۔ یکجا، نہیں ہوئے
آئے تھے گو، طبیب، بچانے، بڑے بڑے
منزل کو جا لیا ہے سبھی قافلوں نے، ہم
کیا سوچتے ہیں، گم سے، نجانے، کھڑے کھڑے؟
ہم کو عطا تو کرنا ہے، ایماں کے وصف سے
اک دن، جہاں کا نسق، خدا نے، پڑے پڑے!