یوں تو کہتا ہے کچھ خفا نئیں ہے
بارے پہلے سا ماجرا نئیں ہے
یوں نہیں ہے کہ چاہتا نئیں ہے
اس کا اک دل پہ اکتفا نئیں ہے
مہرباں، خوش ادا، حسیں، دل کش
وہ سبھی کچھ ہے باوفا نئیں ہے
یوں کبھی ایک دن سبھی باتیں
پھر کئی روز بولتا نئیں ہے
ایک دستک ہے شاعری میری
اور تو در، کہ جو کھلا نئیں ہے
ہم ترے قریہء جمال میں گم
کیسے نکلیں کہ راستہ نئیں ہے
آرزو بیش ہے تو دنیا کم
معترض ہے کہ مانگتا نئیں ہے
زندگی کیوں ہے؟ کیوں نہیں رہتی؟
لکھنے والے کا مسئلہ نہیں ہے
ہم سے پوچھا نہیں، بنا ڈالا
پھر شکایت کہ مانتا نئیں ہے