ہر لطف پہ اب پیار کا دھوکا نہیں ہوتا
ہم جان گئے عشق میں کیا کیا نہیں ہوتا
ہم آہ بھی بھرتے ہیں تو ہو جاتا ہے چالان
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو پرچا نہیں ہوتا
اک ہم کہ ہوئے جاتے ہیں لاہور میں کنگال
اور اس کا جنیوا میں بھی خرچا نہیں ہوتا
وہ مونہہ بھی دھولیں تو بدل جاتا ہے ماحول
ہم لاکھ نہا لیویں، اجالا، نہیں ہوتا
شوہر، جمع دو چار، وفادار سے عشاق
خوش رو، کوئی دنیا میں اکیلا، نہیں ہوتا
اس عمر میں نزدیک جو آتی ہے حسینہ
کہتی ہے"دعا کیجئے، رشتہ نہیں ہوتا"
اس عشق میں اور میچ میں یکساں تھی ہزیمت
آیا ہے برا وقت، کچھ اچھا نہیں ہوتا
برپا ہے، دروں دل کے، کہیں آگ سا، ماتم
یوں اپنا کلیجہ ہے، کہ ٹھنڈا، نہیں ہوتا
جیتے ہوئے بیٹھے تھے کہ ویرات نے مارا
اے کاش، یہ، ہمسائے کا لڑکا، نہیں ہوتا