ہاں اے حریمِ ناز، مرے جن نکل گئے
عشووں سے احتراز، مرے جن نکل گئے
سر میں جنونِ عشق کا سودا نہیں رہا
اٹھتے نہیں ہیں ناز، مرے جن نکل گئے
وہ بے وفا تھی چھوڑ کے لندن نکل گئی
جیسے اڑا جہاز، مرے جن نکل گئے
اب ذوقِ وصل، وحشتِ ہجراں نہیں رہی
خوبانِ نیم باز، مرے جن نکل گئے
وہ قاف کی پری تھی، گئی ہے، تو اس کے ساتھ
سب بندگانِ ناز، مرے جن نکل گئے
طبلہ، ستار، چنگ کی آواز بار ہے
گھنگرو نہ کوئی ساز، مرے جن نکل گئے
مجنوں بھی نوکِ خار سے، صحرا کی ریت پر
یوں تھا، رقم طراز، "مرے جن نکل گئے "
تھے نالہء فراق کی تانوں میں ہمنوا
اب سوز نہ گداز، مرے جن نکل گئے
اب ڈالڈا کے ایڈ کا جِنگل سنیں گے ہم
اب فیض نہ فراز، مرے جن نکل گئے
سب تاک جھانک، نامہ و پیغام برطرف
بس روزہ و نماز، مرے جن نکل گئے
اک نوکری تھی جس پہ لٹا دی تمام عمر
کر کر کے ساز باز، مرے جن نکل گئے
اے صاحبانِ امر، سبھی ٹھیک ٹھاک ہے
دنیا کے کارساز، مرے جن نکل گئے
اب دل میں انقلاب کی خواہش نہیں رہی
عمران و شاہ باز، مرے جن نکل گئے
مشکل سے مانگ تانگ کے لائے تھے چار جن
دو دن میں بخت ساز، مرے جن نکل گئے
پہلے بھی عشق کون سا عزت کو راس تھا
اس بار، بے جواز، مرے جن نکل گئے