وہی پر شور، کم ظرفوں سے دونوں
خطابت اِس کی، اُس کی ہاو ہو بھی
مرے اندر کی سرگوشی بھی چپ ہے
مسلسل ہو کا عالم چار سو بھی
بہ فضلِ جابراں، جاں پر بنی ہے
اذیتِ خامشی بھی، گفتگو بھی
عذابوں سے بری شاہوں کے در ہیں
فقیہانِ حرم کے کاخ و کو بھی
بہت حیلے سنے ہیں رہبروں سے
شکارِ مصلحت ہووے گا تو بھی
اسی دربار میں سجدہ کریں گے
ترے یہ، پاک دامن، باوضو بھی