حسن کو یاد تو آیا کہ وہ انمول نہیں
عجز کو مصر کا بازار بہت کام آیا
شیخ چپ تھا، کسی آواز نے توڑا ہے جمود
جبر میں نعرہء میخوار بہت کام آیا
کارِ ابلیس ہے، اس درجہ زمیں کی رونق
سجدہء خاک سے انکار بہت کام آیا
اپنے ہونے کا سبب سوچتے رہتے برسوں!
عمر بھر، عشق کا آزار بہت کام آیا
قہرِ سلطان کا، بے مہریء دلدار کا پل
فیض کا دفترِ اشعار بہت کام آیا
کام بھی کچھ نہ کیا اور معزز ٹھہرے
خلعت و جامہء دربار بہت کام آیا
طبع، آرام طلب، میر سی، اپنی حامد
عشق میں سایہء دیوار بہت کام آیا