ہر کس وناکس کے بچپن میں کچھ ایسی خواہشات ہوتی ہیں جو اُس وقت تو بہت بھلی محسوس ہوتی تھیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جب عقل آئی تو پتہ چلا کہ خاصی مضحکہ خیز تھیں۔ یا پھر اُن خواہشات کی تکمیل اللہ نے قسمت میں ہی نہ لکھی تھیں۔
بچپن میں چونکہ بیشتر احباب کی طرح ہم بھی چُھٹیاں گُزارنے نانی کے گھر جایا کرتے تھے۔ اور سفر بھی ریل گاڑی کا ہوتا تھا۔ والد ِ مُحترم ریل گاڑی کے سفر کے دوران بوگی کے دروازے پر کھڑے ہو کر تمباکو نوشی سے شغل فرمایا کرتے تھے۔ اس وقت ایک خواہش مُسلسل دِل میں چُٹکیاں لیتی رہی کہ جب بڑے ہونگے تو اسی سٹائل میں دروازے میں کھڑے ہو کر، جلتے ہوئے سگریٹ کو منہ میں دبا کر، کش بھرتے ہوئے جب دھواں دہانے سے وارد کریں گے تو کتنا مزہ آئے گا۔ لیکن کیا پتا تھا، جب سگریٹ پکڑنے کے قابل ہونگے تب ریلوے کا بھٹہ ہی بیٹھ جائے گا۔ پھر بھی ایک سال قبل کچھ عزیزو اقارب کے ہمراہ راول پنڈی جانے کا اتفاق ہوا۔ جب ٹرین میں بیٹھ گئے تو پتہ چلا کہ سرکار نے پلیٹ فارم پر سگریٹ کی فروخت بند کردی ہے۔ اور ہم اپنے بچپن کی خواہش کو دل میں دبا کر رہ گئے۔ بقول منیر نیازی
کُجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کُجھ سانوں مرن دا شوق وی سی
ہم متوسط طبقے کے لڑکوں کو اپنا خود کا کمرہ شادی کے بعد نصیب ہوتا ہے۔ شادی سے پہلے پورے گھر میں جہاں سینگ سماتے تھے وہیں سو جایا کرتے تھے۔ مُجھے آج بھی یاد ہے کہ کئی دفعہ بر آمدے یا گیراج میں بھی اپنی استراحت کا انتظام کیا۔ اُس وقت دل میں یہ خیال بار بار آتا تھا کہ اگر اللہ نے چاہا تو ہمارا بھی اپنا ذاتی کمرہ ہوگا جِس کے ہم مالک ومُختار ہونگے۔ ایک ٹی وی ہوگا جس کا ریموٹ ہمارے قبضے میں ہوگا اور اس پر ہم اپنی مرضی سے چینل بدلیں گے اور وہ سب دیکھیں گے جو گھر والوں کے سامنے نہیں دیکھ سکتے۔ ایک نرم سا بستر ہوگا جس کے ساتھ سائیڈٹیبل پر ایک کوکا کولا کی ٹھنڈی بوتل ہوگی۔ تھوڑے فاصلے پر ایک ایش ٹرے ہوگی جس میں وقتاً فوقتاً ہم سگریٹ کی راکھ کو تہ برد کریں گے۔ کمرے کا درجہ حرارت کو برقرار رکھنے کے لئے ایئر کنڈیشنر پورے جوبن پرچلے گا۔
خیر یہ تو ہمارا معصوم سا خواب تھا لیکن حقیقی زندگی اس سے بلکل مختلف ہے۔
پچھلی دہائی میں شادی خانہ آبادی کے بعد ہم کو بھی ایک کمرہ مرحمت کیا گیا۔ لیکن اختیار نہ ملا۔ ٹی وی تو ملا لیکن ریموٹ کنٹرول نہ مِلا۔ ایش ٹرے تو ملی لیکن سُلگتا ہوا سگریٹ نہ ملا۔ ائیر کنڈیشنر تو ملا لیکن بل کے خوف سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکےنصیب نہ ہوئے۔ قسمت سے اہلیہ اگر میکے چلی بھی جائیں تب بھی اُن کی موجودگی کا قوی احساس بھی اس خواب کو پورا کرنے کی راہ میں حائل ہے۔
بالی وڈ کی شہرہ آفاق فلم دل والے دلہنیا لے جایئں گے میں فریدہ جلال نے بڑا خوب ڈائیلاگ کہا ہے کے سپنے ضرور دیکھو لیکن اُن کے پُورا ہونے کی شرط نہ لگاؤ۔ لہذا ایک نیک، شریف، پاکستانی آدمی ہونے کے ناطے ہم اپنے اِن دو معصومانہ خوابوں کو پایہءتکمیل ہونے کی شرط سے دستبردار ہوگئے۔ بقول غالب
ہزاروں خواہشیں ایسی کے ہر خواہش پر دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں پھر بھی کم نکلے