دنیا جہان کی طرح پاکستان میں بھی مکانات اور رہنے کیلئے بنائی گئی رہائشگاہیں موسموں کی مناسبت سے بنائی جاتی ہیں۔ وہ علاقے جہاں بارشیں یا برفباری ہوتی ہے وہاں مخصوص چھتوں والے مکان بنائے جاتے ہیں تاکہ پانی یا برف زیادہ دیر نا ٹہر سکے، اسی طرح سے میدانی علاقوں میں بنائے جانے والے گھروں میں ہوا کے گزر کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ علاقوں کی آبادی سے قبل تمام تر نظاموں کو وہاں بسنے والی آبادی کے لحاظ سے منظم کیا جاتا ہے تاکہ علاقے سے خصوصی طور پر نکاسی آب اور ترسیلِ آب کیلئے کسی رکاوٹ کا سامنا نا کرنا پڑے، اسی طرح سے باقاعدہ راستے اور گھروں کی حدود کا تعین اور اس پر عمل درآمد یقینی بنایا جاتا ہے۔ ہڑپہ اور موہنجو دڑو کے کھنڈرات میں نکاسی آب کیلئے بنایا گیا نظام اور راستوں کی پائیداری خصوصی توجہ اپنی جانب مبذول کرتی ہے جو اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ اس وقت کے منتظمین کس قدر جہاں دیدہ اور مخلص تھے۔
پاکستان میں ایسی بہت ساری سوسائیٹیز اور کالونیاں موجود ہیں جہاں کا نظامِ زندگی، عمومی طرزِ زندگی سے مکمل طور پر نا صرف الگ دیکھائی دیتا ہے بلکہ یہ سوچنے پر بھی مجبور کر دیتا ہے کہ یہ اسی شہر اور علاقے میں واقع ہیں کہ جہاں پر عام مکین عام علاقوں میں رہتے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ جان لیجئے کہ پاکستان کے حکمرانوں اور منصوبہ بندی سازوں نے پانی کے ذخائر نا بنا کر ایک تاریخی غلطی کر دی ہے۔
جس کے نتیجے میں پاکستان میں ہونے والی بارشوں اور گرمیوں میں برف کے پگھلنے والے برف کے تودوں کی صورت میں پانی کی خطیر مقدار ضائع ہوتی جا رہی ہے اور اس قابل استعمال پانی کو سمندر بدر کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں سالانہ بارشوں کا تناسب گزشتہ چار سالوں سے بڑھ گیا ہے خصوصی طور پر شہر کراچی کا جو یقینا کائیناتی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے عمل میں آیا ہے۔
آج کل انگلینڈ میں درجہ حرارت کے غیر معمولی سطح پر بڑھنے سے تاریخ کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں جو اس بات کی عکاسی ہے کہ موسمی تغیرات نے ساری دنیا میں اثر انداز ہونا ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کا کسی ملک چاہے وہ کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نا ہو، کے پاس کوئی لائحہ عمل موجود نہیں ہے جس کا منہ بولتا ثبوت کورونا جیسی قدرتی وباء میں مکمل طور پر سب کے سامنے آ چکا ہے۔ لیکن ترقی یافتہ ممالک سنگین حالات کو بہت منظم طریقے سے سنبھالنے کا ہنر جانتے ہیں۔
ہم یہاں کسی ماحولیاتی تبدیلیوں یا قدرتی آفات پر فی الحال کچھ نہیں لکھنا چاہتے کیونکہ ہمارے ملک میں جب کبھی بھی حالات کسی بھی نوعیت میں سنگین ہوتے ہیں تو نا تو انتظامیہ دیکھائی دیتی ہے، نا ہی عوامی نمائندوں کا دور دور تک نام و نشان دیکھائی دیتا ہے بس دیکھائی دیتا ہے تو عوام کا اپنی مدد آپ کے تحت حالات سے مقابلہ کرنا۔ پچھلے چار سالوں سے پاکستان میں اور خصوصی طور پر شہر کراچی میں اللہ کی رحمت بہت زیادہ برس رہی ہے اور جو آخر کار بدترین زحمت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
یوں تو بلوچستان کا حال باقی تینوں صوبوں سے زیادہ بدترین ہوتا ہے اور کتنا بدترین ہوتا ہے اس کا بھی صرف اندازہ ہی لگایا جاتا ہے کیوں کہ یہ وہ صوبہ ہے جو وسائل کی عدم دستیابی میں پہلے نمبر پر ہے۔ اطلاعات کے مطابق اور کچھ سماجی ابلاغ کے مرہون منت جہاں بلوچستان میں حالیہ بارشوں میں خاطر خواہ مالی نقصان ہوا ہے اسی طرح سے جانی نقصان بھی بہت زیادہ ہوا ہے لیکن بد قسمتی سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
خیبر پختون خواہ اور پنجاب کسی حد تک بارشوں کی صورتحال سے بتدریج قدرے بہتر طریقے سے سنبھلنے کا ہنر جانتے ہیں۔ سندھ وہ صوبہ ہے جہاں وسائل کی تو کوئی کمی نہیں ہے، جہاں سے ملک کی معیشت کا پہیہ چلتا ہے لیکن وسائل کو بروئے کار لانے والوں کا بدترین فقدان ہے۔ بین الاقوامی سطح پر جانا جانے والا شہر جسے کبھی روشنیوں کے شہر کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا، دنیا کی بہترین اور قدرتی بندرگاہ کا حامل شہر کراچی ہر دفعہ ہی بارشوں میں تقریباً بہہ ہی جاتا ہے جسے ہر بار کراچی والے سمیٹ کر لاتے ہیں۔
سیاسی فنکار جب بارش کا سلسلہ جاری ہوتا ہے بڑی بڑی سرکاری گاڑیوں میں نکلتے ہیں تصویریں اور ویڈیو بنواتے ہیں اور پھر ایسے غائب ہوتے ہیں جیسا کہ آپ خوب جانتے ہیں۔ انتظامی امور پر سندھ کی انتظامیہ کے عبور کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ بارشوں کی پیشنگوئی ہونے کے باوجود سڑکوں پر معمولی پیوندکاری کا کام کروایا گیا، بھلا ایسے موسم میں اس طرح کے کام کوئی انتہائی غیر منظم فرد ہی کروا سکتا ہے (گو کہ وہ جواب اور جواز بھی پیش کرتے رہینگے)۔
سندھ میں ہونے والے چوبیس جولائی کے بلدیاتی انتخابات کی تاریخ کا آگے بڑھنا یقینا سندھ اور خصوصاً کراچی کے لئے بہتر ثابت ہو گا، موجودہ بارشوں نے کام کرنے والوں اور دعوی کرنے والوں کی کارگردگی کھول کر عوام کے سامنے رکھ دی ہے۔ تقریباً شہر کی ساری سڑکیں انتہائی بے بسی کی شکل اختیار کئے ہوئے ہیں۔ بارش کو ختم ہوئے چار دن سے زیادہ ہو چکے ہیں لیکن تاحال اہلیانِ کراچی بری طرح سے سڑکوں میں بدترین ٹریفک کی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔
کراچی کا سب سے اہم علاقہ جسے ڈیفینس ہاوسنگ آتھارٹی کے نام سے جانا جاتا ہے کسی سیلاب زدہ علاقے کا منظر پیش کر رہا ہے۔ کورنگی کراچی کا ایک انہتائی اہم صنعتی علاقہ ہے اور جہاں کراچی کے دوسرے علاقوں سے لوگ روزگار کیلئے روزانہ سفر کرتے ہیں سب سے پہلے تو پبلک ٹرانسپورٹ کی کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے جانے والوں نے اپنے ذاتی بندوبست سے اپنے روزگار پر پہنچنا ہے۔ کورنگی کو باقی شہر سے ملانے والے چار اہم راستے ہیں اور چاروں راستے ملیر ندی سے ہو کر کورنگی میں داخل ہوتے ہیں۔
ان چار میں سے دو پر پل تعمیر ہیں اور دو ندی سے ہو کر کورنگی میں داخل ہوتے ہیں۔ ایک راستہ شاہ فیصل کالونی والے پل سے ہو کر جاتا ہے، دوسرا راستہ جام صادق پل سے جاتا ہے باقی دو راستے جو ندی سے ہو کر جاتے ہیں جو عمومی طور پر سب سے زیادہ استعمال ہوتے ہیں، بارش کے دنوں میں ان اہم راستوں پر پانی آ جانے کی وجہ سے بند ہو جاتے ہیں اور پانی ان راستوں کو اتنا خراب کر دیتا ہے کہ بارش کے ایک ایک ہفتے بعد تک ان راستوں کی مرمت کا کام جاری رہتا ہے۔
جس کی وجہ سے ایک اندازے کے مطابق اسی (80) فیصد ٹریفک جام صادق پل سے گزرتا ہے اور بیس (20) فیصد ٹریفک شاہ فیصل کا راستہ استعمال کرتے ہیں۔ اسی (80) فیصد ٹریفک کی روانی اتنی بری طرح سے متاثر ہوتی ہے کہ اپنے روزگار پر پہنچنا اور وہاں پہنچ کر کام کرنا ایک طرف رہ جاتا ہے اور ایسی ہی صورتحال کا واپسی پر بھی کرنا پڑتا۔
اس ساری صورتحال میں کسی قسم کی انتظامیہ کی حکمت عملی کہیں نہیں دیکھائی دیتی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ٹریفک کی روانی بحال کرنے کی کوششیں کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ اس کمر توڑ مہنگائی میں ایندھن کا اس قدر ضائع ہونا عوام کیلئے الگ تکلیف دہ عمل ہوتا ہے، اکثر گاڑیاں ایندھن ختم ہونے کی وجہ سے ان راستوں میں مزید مشکلات پیدا کر دیتی ہیں۔
جگہ جگہ ٹریفک کنٹرول کرنے والا عملہ بے بس کھڑا دیکھائی دیتا ہے، وہ اپنی سی کوشش کر کے ایک طرف ہو کر یا تو اپنے موبائل میں مصروف ہوتے ہیں یا پھر حسب عادت ہاتھ سے چلتے رہنے کا اشارہ کرتے رہتے ہیں۔ جہاں بارشوں میں بجلی کے کرنٹ سے یا پھر کہیں چھت گرنے سے یا پھر کوئی کھلے گٹروں میں گرنے سے ہلاک ہوئے تو معلوم نہیں کتنے ہی لوگ ان ٹریفک میں پھنسی ایمبیولینس میں اپنی زندگی کی بازی ہار گئے ہونگے۔
حکومت کا صرف ایک بیان جو سامنے آتا ہے کہ بارش کے موسم میں عوام اپنے گھروں میں رہیں بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ یومیہ روزگار پر کام کرنے والا کیسے اپنے گھر میں بیٹھ کر اپنے بھوک سے مرجھائے ہوئے بچوں کے چہرے دیکھ سکتا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی نمبر بنانے کیلئے تو جز وقتی دیکھائی دیتی ہیں اسی طرح فلاحی ادارے اپنے مطلب کیلئے منظرِ عام پر آتے ہیں پھر ایک وقت آتا ہے کہ کراچی صرف بہہ رہا ہوتا ہے اور کوئی اس بہاو کو روکنے کیلئے نہیں آتا۔
اس ساری صورتحال سے خوس اسلوبی سے نمٹنے کا ایک آسان فارمولہ یہ ہے کہ تمام کورنگی میں کام کرنے والے ادارے ایک متفقہ حکمت عملی سے کارخانوں اور دفتروں کے اوقات کار تبدیل کر لیں۔ جیسے ایک آٹھ سے چار کر لے ایک ساڑھے آٹھ سے ساڑھے چار کر لے۔ کراچی تو معلوم نہیں کب تکہ بہتا رہے گا۔ بہر حال بلدیاتی انتخابات میں ووٹ اسے دیجئے گا جس تک آپ کی رسائی ہو جو کسی بھی مشکل وقت میں آپ کی پہنچ میں ہو۔