ملک انتہائی تکلیف دہ حالات سے دو چار ہے اور ان تکلیف دہ حالات کا سبب ملک کو خود مختار ہونے سے روکنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ روائتی حالات کے عادی اور صحیح، غلط سے عاری طرزِ حکمرانی کے نظام کو چلانے والے بھلا کس طرح سے حدود و قیود کے پابند ہو سکتے ہیں؟ جب کہ دنیا میں ترقی کرنے والوں نے باقاعدہ نظام بنائے اور نظاموں پر بھرپور عمل درآمد کیا، گاہے بگاہے ان میں مزید بہتری لائے پھر کہیں جا کر انہیں ترقی کی شاہراہ میسر آئی۔
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ قانون اور قانون نافذ کرنے والوں کا متنازعہ کردار ہے، یہاں یہی دیکھا جاتا رہا ہے کہ "جس کی لاٹھی اس کی بھینس" کے مفروضے پر عمل کیا جاتا ہے۔ پھر حکمرانوں کا ایک مخصوص ٹولہ ملکِ خداداد پاکستان کو گویا اپنی جاگیر سمجھتا رہا ہے جس کا منہ بولتا ثبوت، موروثی سیاست کی بھرپور افزائش کی جاتی رہی ہے۔ ملک نے ہر نئے دن کے ساتھ آگے بڑھنا تھا سو وہ بڑھ رہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تا قیامت بڑھتا ہی رہے گا۔
لیکن اس میں انتظامی امور کا احاطہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ملک کے آگے بڑھنے سے مراد دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے ہم آہنگی ہے، جبکہ پاکستان کسی ایسے فرد کی طرح آگے بڑھتا رہا ہے جو کسی ہجوم میں پھنس گیا ہو اور اس کی اہلیت و قابلیت ایسی نہیں ہو کہ وہ آگے بڑھے لیکن اسے آگے بڑھنا ہی پڑتا ہے۔ حکمران یہ دیکھ کر کہ ملک ہمارے بغیر کچھ کئے بھی آگے بڑھ رہا ہے، ملک کے لئے کچھ کرنے کی فکر سے آزاد ہو گئے اور پھر جو کچھ کیا اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لئے کرتے چلے گئے، ملک کے لئے قرضے لیتے رہے اور اپنے کاروبار کو فائدہ مند بناتے چلے گئے۔
اللہ کا قانون ہے کہ اس نے ہر فرعون کے لئے ایک موسیٰؑ، کو بھیجا ہے جو اس کے کئے گئے ظلم، نا انصافی اور ہر قسم کی بدعنوانی کا اسے بتائے اور اسے احتساب کے لئے عوام کے سامنے لانے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ اگر موازنہ کیا جائے تو پاکستان میں بھی کچھ اس سے مختلف نہیں ہوا، ملک پر مسلط مخصوص حکمران طبقے سے جو اب ان کے حکومت میں گزارے گئے ادوار کا حساب مانگا گیا تو انہوں نے اس کے جواب میں اس طرح کا ردِ عمل دیا کے جیسے کسی نے ان کے باورچی خانے کے اخراجات کے بارے میں پوچھ لیا ہو۔
(جو اس بات کی عکاسی ہے کہ انہوں نے بائیس کروڑ افراد کے ملک کو ذاتی ملکیت سمجھ رکھا)۔
بات بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ ان لوگوں سے اقتدار بھی گیا اور تو اور ملک کی زمین بھی تنگ ہوتی چلی گئی، شائد اس طرح کے حالات کے لئے تیار تھے جس کا منہ بولتا ثبوت بیرونی ممالک میں بھی باقاعدہ جائیدادیں بنا رکھی ہیں جہاں وہ حالات کے پیش نظر منتقل ہو گئے۔ عوام کو آہستہ آہستہ اس بات کی سمجھ آنا شروع ہو گئی کہ ہم پر ٹیکسوں کی بھر مار ہونے کے باوجود ملک کا خسارہ کم نہیں ہوتا تو آخر یہ پیسہ جاتا کہاں ہے؟
ساری پریشانیاں عوام کے لئے ہی کیوں ہیں؟ کیوں ہمارے حکمرانوں کی زندگیاں بھرپور آسائشوں سے مزین رہتی ہیں؟ جب یہ لوگ ہمارے ووٹوں سے اقتدار میں آتے ہیں تو یہ ہم سے اتنے خوفزدہ کیوں رہتے ہیں، کیوں اپنی حفاظت کے لئے اتنی بڑی دیوار بنا لیتے ہیں کہ ہماری نظروں سے ہی اوجھل رہتے ہیں؟
قدرت نے پاکستان کے لئے عمران خان کو منتخب کیا، اس انتخاب سے قبل عمران خان کو نا صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا اور ایسے کاموں سے جوڑے رکھا جس سے عوام کے دلوں میں عمران خان دھڑکنا شروع کر دے، عمران خان کے دل میں اپنے پیارے محبوب ﷺ کی سچی محبت ڈالی اور نفاذِ دین کے لئے کھڑ ا کر دیا، جو صرف انصاف کی بالادستی کے لئے نکلا تھا اسے ہدایت کا راستہ ملتا چلا گیا۔
عمران خان ہی ہے کہ جس نے امتِ مسلمہ کا مقدمہ اقوام متحدہ میں پیش کیا اور کیا خوب پیش کیا کہ دنیا کو شش و پنج میں ڈال دیا، انہی کی زبان میں انہیں اپنا (مسلمانوں) مسلہ خوب سمجھایا اور تقریباً دنیا کو سمجھ بھی آ گیا اور دنیا کو یہ بھی سمجھ آ گیا کہ اب اس مسلہ سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں، کیوں کہ عمران خان نے یہ واضح کر دیا تھا کہ اگر مغرب کا رویہ اسلام کے ماننے والوں کے ساتھ ایسا ہی رہا جیسا کہ ماضی میں رہا ہے تو کوئی بعید نہیں کہ حالات کسی کے قابو میں نا رہیں۔
کیا وہ لوگ جو کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کے ماننے والے ہیں انہیں عمران خان کے اس مؤقف پر اعتراض ہو سکتا ہے کہ پاکستان کو اپنے فیصلے خود کرنے چاہئیں؟ اگر آپ پاکستانی ہیں اور مسلمان ہیں تو کیا ہم بھول گئے ہیں کہ پاکستان کا مطلب کیا ہے؟ پاکستان اور اسلام کا مقدمہ لڑنے والے عمران خان اپنی کارکردگی بہتر سے بہترین کرتے جا رہے ہیں۔
جس کی مرہونِ منت لمحہ لمحہ بڑھتی مقبولیت سے خوفزدہ ٹولے کو اپنا اور اپنے اہل و عیال کا مستقبل تاریک ہوتا محسوس ہوا تو انہوں نے ملکی سالمیت اور بقاء کو بھی داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کیا اور اپنے غیر ملکی سر پرستوں سے مدد مانگ لی جس کے لئے ہر مطلوبہ قیمت ادا کرنے کی بھی حامی بھری گئی۔ اب جب کہ عمران خان کی حکومت نہیں رہی، اور ایک باقاعدہ امپورٹڈ (درآمد شدہ) حکومت اقتدار پر قابض ہو چکی ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہیں سیدھے طریقے سے کام کرنا نہیں آتا اور اب تقریباً کام سیدھے کئے جا چکے ہیں۔ اب دو صورتیں سامنے تھیں ایک تو یہ کہ وہ ان کاموں کو مان لیں اور انہیں پر عمل شروع کر دیں جو اپنی انا کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف تھا اور دوسری طرح کرنے کی گنجائش باقی نہیں تھی، یعنی دونوں صورتیں انہیں سیاسی انجام کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہیں۔
درآمد شدہ حکومت کا خیال تھا کہ یہ1992 میں ہیں کہ کچھ بھی کرتے پھریں گے اور کسی کو پتہ نہیں چلے گا۔ انہوں نے اس بات کو بھی خاطر میں نہیں رکھا کہ عمران خان کی اصل طاقت ہی سماجی ابلاغ ہے اور سماجی ابلاغ کا ستر سے اسی فیصد استعمال کرنے والا نوجوان ہے، بس پھر کیا تھا سب کچھ سب کے سامنے آ گیا اور درآمد شدہ حکومت باقاعدہ برہنہ ہو گئی۔
عمران خان نے درآمد شدہ حکومت اور ان کے بوسیدہ طرز کی سیاست سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے کسی ادارے سے مدد نہیں لی، کسی بیرونی طاقت کو آواز نہیں دی بلکہ عوام کے پاس جا کر بیٹھ گئے اور عوام کے سامنے اپنا مقدمہ رکھ دیا اور بتایا کہ ہم مسلمان صرف اور صرف اللہ سے مدد مانگتے ہیں اور اسی کی عبادت کرتے ہیں، اور اب وہ ہی ہماری مدد کے لئے ہمیں ہمت اور طاقت عطاء فرمائے گا۔
آزادی مارچ شروع ہو چکا ہے، درآمد شدہ حکومت اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کر رہی ہے اور حکومت میں تو ویسے بھی اکثریت مجرموں اور ملزموں کی ہے وہ بپھرے ہوئے عوام کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ بات تو واضح ہو چکی ہے کہ اب ان کے پاس کرنے کے لئے کچھ نہیں اور یہ برملا اس کا اظہار بھی کر چکے ہیں لیکن اب یہ اپنی سیاست بچانے کے لئے دیکھنا ہے کہ کس حد تک جانے والے ہیں؟
ان کے لئے سب سے بری خبر یہ ہے کہ ان کی سرپرستی کرنے والوں نے بھی مزید سر پرستی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ پاکستان انشاءاللہ اپنی حقیقی آزادی کی حاصل کرنے کے قریب تر ہے۔ اللہ پر یقین ہے کہ جب آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہوں گے تو پچھتر سال قبل حاصل کی جانے والی آزادی کو آزاد کرا لیا گیا ہو گا اور پاکستان کی سر زمین پر آزادی سورج اپنی آب و تاب سے چمک رہا ہوگا۔