ملک کو چلانے والے جب اس بات سے مبرا ہو جائیں کہ جس سر زمین کی آبیاری پر انہیں تعینات کیا گیا ہے، جس نے انہیں اس مقام تک پہنچایا ہے انکے کسی عمل سے اسے نقصان تو نہیں پہنچ رہا۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمیں ارباب اختیار ایسے ہی ملتے رہے ہیں کہ جو اجتماعی یا ملکی مفادات پر اپنے ذاتی یا انفرادی مفادات کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔
قائدِاعظم محمد علی جناح، 231، سے جب پوچھا گیا کہ اجلاس میں چائے یا کافی پلانی ہے تو انہوں نے جو جواب دیا وہ حقیقت میں ایک پالیسی (حکمتِ عملی) کی واضح دلیل تھا، آپ، 231، نے فرمایا کہ چائے یا کافی اپنے اپنے گھروں سے پی کر آئیں۔ بظاہر یہ ایک انتہائی معمولی سی بات تھی لیکن یہ واضح دلیل واشگاف بیانیہ تھا کہ عوام کے پیسے سے حکمران چائے تک پینے کے مجاز نہیں ہو سکتے۔
سماجی ابلاغ کی مرہونِ منت ایسے بے تحاشہ واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں جن سے بانیانِ پاکستان کے ان اعمال سے پردہ اٹھتا ہے جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کو خود مختیار اور بااختیار بنانے کیلئے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھنا پڑے گا، وہ عظیم لوگ تھے اپنی ذاتی شان و شوکت کو صرف اسلئے قربان کر دیا کہ پاکستان کی عوام اپنے حکمرانوں کی شاہ خرچیاں دیکھ کر مایوس نا ہو جائے۔
بانیانِ پاکستان قوم کی تربیت اصولی راہوں پر استوار کرنا چاہتے تھے، انصاف کا بول بالا چاہتے تھے اور مدینے کی ریاست جیسا نظام مصطفےٰ ﷺ چاہتے تھے۔ ملک نے اڑان بھی بھری اور دنیا کو اپنے وجود سے متاثر بھی کیا، کئی ممالک کو انکے پیروں پر کھڑے ہونے میں مدد بھی کی، جو آج دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں شمار کئے جاتے ہیں۔ معلوم نہیں کہاں سے ہمارے ملک کی بنیادوں میں بدعنوانی کی دیمک چمٹ گئی جبکہ پاکستان کی بنیادوں میں لاکھوں شہیدوں کا خون شامل تھا۔
بس پھر کیا تھا ہم نے جیسے تنزلی کا سفر شروع کر دیا ہمارے حکمران تو ذاتی حیثیت میں خوشحال ہوتے چلے گئے لیکن پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبدتا ہی چلا گیا۔ سیاسی حکمران ہوں یا عسکری پاکستان نے سکھ کا سانس نہیں لیا، نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ہمارا ملک دنیا کے گدھوں کی نظر میں تر نوالا سمجھا جانے لگا۔ یہ بھی خدا کی خاص رحمت ہے کہ ہماری افواج اور ہماری قوم وطن عزیز کی طرف اٹھنے والی ہر بری نگاہ کو نوچنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر اس کام کیلئے وہ کسی رہنمائی کے بھی محتاج نہیں ہوتے۔
پاکستان بہت سارے شہروں، گاؤں، دیہاتوں کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے لیکن اس گلدستے میں لاہور، پشاور اور کوئٹہ اہم شہر ہیں جن کی بہتری کیلئے صوبائی حکومتیں ہی نہیں بلکہ وفاقی حکومت بھی اپنا حصہ ڈالتی ہے۔ ان سب سے بڑھ کر پاکستان کا معاشی مرکز اور کبھی روشنیوں کے شہر کے نام سے جانا جانے والا شہر کراچی ہے جس کی حیثیت اس لئے بھی بہت اہم ہے کیونکہ یہ بندرگاہ رکھنے والا شہر ہے۔
درحقیقت تو پاکستان کا یہ وہ شہر ہے کہ جس کیلئے سندھ کی صوبائی حکومت کیساتھ ساتھ دیگر صوبوں کی حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے سالانہ بجٹ میں کچھ رقم مختص کرے اور ساتھ ہی وفاق بھی سالانہ بنیادوں پر اس شہر پر خطیر رقم خرچ کرنے کیلئے آگے آئے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ پورے پاکستان سے لوگ روزگار کیلئے اس شہر کا رخ کرتے ہیں اور تقریباً تو ایک دفعہ آنے کے بعد یہیں کے ہو جاتے ہیں کیونکہ کراچی شہر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہاں بندہ بھوکا اٹھتا ضرور ہے لیکن بھوکا سوتا نہیں ہے۔
اس صورتحال کی پیش نظر شہر کا حال کسی ایسے گلاس کی طرح ہو چکا ہے کہ جس کی گنجائش پوری ہو چکی ہے اور اب وہ اپنے اطراف یا گردونواح کی خرابی کا باعث بن رہا ہے، یہ وضاحت بہت آسان اور سادہ انداز میں بیان کی گئی ہے جبکہ زمینی حقائق اس سے کہیں زیادہ خوفناک ہیں۔ خوشبوؤں اور روشنیوں کا شہر اب بدبو دار اور تاریک زدہ ہو چکا ہے، شائد یہاں یہ مثال صادق آتی ہے کہ اجڑ گئے وہ باغ جس کے ہزار مالی تھے۔
یہاں یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ اب وہ وقت ہو چکا ہے کہ کراچی کا نام تبدیل کر دیا جائے کیونکہ کراچی کے نام کے ساتھ جو خوبصورتی جڑی ہے وہ اب کراچی میں کہیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ اس ساری بدحالی کی ذمہ داری کسی ایک کے کھاتے میں نہیں ڈالی جا سکتی البتہ جو کراچی کے وارث بنے تھے وہ ضرور اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں۔
شہر کراچی کے نوجوانوں کو ایک منظم سازش کے تحت تعلیم سے دور کیا گیا تاکہ وہ اپنی بقاء کی جنگ لڑنے کے اہل ہی نا ہو سکیں، جس کا منہ بولتا ثبوت آج کا کراچی ہے۔ شہرِ کراچی میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بہت فعال ہیں اسکے باوجود دن دہاڑے لوٹ کھسوٹ اور جان لینی جیسی خوفناک وارداتیں عام ہو رہی ہیں۔
عروس البلاد شہر کراچی گزشتہ دو دہائیوں سے انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے، ایسا بھی نہیں کہ شہرِ قائد نے پاکستان کی معیشت میں اپنے قلیدی حصے کو روک دیا ہو یا کم کیا ہو، ایسا بھی نہیں کہ شہر کی خوشحالی کیلئے گلی محلوں کی بحالی کیلئے سبز باغ دیکھانے والوں کو اپنے قیمتی ووٹ نا دئیے ہوں، سب کچھ کرنے کے باوجود شہر کراچی کسی لاوارث کی مانند اپنے بدترین شب و روز دیکھ رہا ہے۔
کسی نے کراچی کی بدحالی پر رحم کھایا اور اربوں روپے دینے کا وعدہ کیا پھر کسی نے ایسا ہی کیا نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ملک کا سب سے بڑا ریوینو پیدا کرنے والے شہر کی بحالی کیلئے نا تو وفاق کے پاس پیسے ہیں نا ہی صوبے کے پاس لیکن صوبائی حکومت کا ایک ایک رکن اربوں کھربوں کا مالک ہے۔ شہر کراچی میں پیدا ہونے والے اسی شہر میں رہنے والے اب ڈرے ڈرے اور سہمے سہمے سے رہتے ہیں۔
کراچی بدحال ہی نہیں بلکہ ایک انتہائی غیر محفوظ شہر بھی ہے، راہ چلتے یہ انتظار بھی رہتا ہے کہ کب، کہاں سے کون آئے گا اور ہم سے ہماری زندگی سمیت سب لوٹ کر لے جائے گا، جب لوگ کشمیر، افغانستان یا فلسطین کی بات کرتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ وہاں مزاحمت کرنے پر شھادت تو ملتی ہے وہاں اپنے اپنے دشمن کا واضح پتہ تو ہے لیکن ہمارے شہر کراچی میں کچھ پتہ نہیں کون کر رہا اور کون کروا رہا ہے۔
کراچی کی بحالی کا نام لے کر دئیے جانے والے پیکیجز دراصل کراچی کیلئے تخریبی پیکیجز ہیں، جو ایک کے بعد ایک ملتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ یہاں بلدیاتی انتخابات کا بھی تذکرہ کرتے چلیں جو مسلسل التواء کا شکار ہو رہے ہیں جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کسی کے ذاتی مفادات کو ان انتخابات کی وجہ سے نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے اور ایک منظم حکمت عملی کے تحت انہیں تاریخ پر تاریخ کی نظر کیا جا رہا ہے۔ کراچی کو بظاہر ملنے والے تخلیقی پیکیجز عملی طور پر تخریبی ثابت ہوتے رہے ہیں اور آج کراچی شہر تخریب کاروں کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔