ہم اس دور میں پہنچ چکے ہیں جہاں سال مہینوں، مہینے دنوں میں اور دن گھنٹوں میں گزرنا شروع ہو جائیں گے، گویا وقت کو پر لگ جائیں گے۔ جو لوگ وقت کے پیروں میں یا پروں کیساتھ چلنے کی کوشش کرینگے وہ ہلکان ہو جائیں گے اگر ہلکان ہو کر بھی خود کو وقت کی رتھ سے الگ نہیں کرینگے تو تقریباً ضائع ہو جائیں گے کیونکہ وقت کسی کے بس میں نہیں آنے والا۔
کوئی کتنا ہی بڑا وقت کو انتظام سے چلانے والا کیوں نہ ہو وہ وقت کو قابو میں کر ہی نہیں سکتا یہ اور بات ہے کہ آپ اپنے آپ کو انتہائی محدود کر کے زندگی کے راستے پر یا پھر پگڈنڈی پر چلاتے رہیں۔ طاقت وقت کو قید کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے اور جز وقتی ایسا ممکن ہوتا دیکھائی بھی دیتا ہے لیکن جیسے ہی ذرا سی طاقت میں کمی آتی ہے وقت ایسے بھاگتا ہے کہ اگلی پچھلی ساری کسر نکال دیتا ہے۔
ایک بہت ہی سبق آموز چند الفاظ پر مشتمل تحریر، میرا یہ وہم تھا کہ میں سب سے اہم تھا سماجی ابلاغ پر کئی دنوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ ہم سب اپنی اپنی جگہ اس بات پر ڈٹے رہتے ہیں کہ میں بہت اہم ہوں لیکن یہ دنیا کس بے دردی سے وقت کے ہاتھوں روندتی ہے ہم سوچ بھی نہیں سکتے لیکن اگر ہم بینائی رکھتے ہیں تو دیکھ سکتے ہیں کہ کس کس طرح سے اپنے اپنے وقت کے خداؤں کو کس کس طرح سے غیر اہم قرار دیا گیا اور جو غیر اہم تھے انہیں کس کس طرح سے اہم قرار دیا گیا۔
ہم نے ہمیشہ یہ پڑھا، سنا اور لکھا ہے کہ پاکستان وقت کے سب سے سنگین دور سے گزر رہا ہے سو آج کے دن بھی ایسا ہی ہے، پاکستان کو اس حال پر پہنچا دیا گیا ہے کہ کوئی بیرونی طاقت پاکستان پر حملہ کئے بغیر پاکستان کی داخلی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کو کمزور ترین کر چکی ہے۔ ملک کی بدتری میں ہمیشہ سے ایک عنصر مشترک رہا ہے اور وہ ہے ہمارے داخلی حالات جو صرف اور صرف اقتدار کے حصول کیلئے خراب کرنے سے گریز نہیں کیا گیا، اور اقتدار کا حصول یا اقتدار میں رہنا کیوں ضروری رہا ہے تاکہ اپنی کی گئی بدعنوانیوں پر سے کوئی پردہ نہ اٹھا سکے۔
اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں موروثی سیاست بھرپور طریقے سے نشونما پا رہی ہے۔ عوام کے مسائل آج بھی ویسے ہی ہیں جو جیسے پہلے تھے یا اس سے پہلے تھے، قابل تعریف بات یہ ہے کہ سب سے پہلے والے کام کروائے جاتے ہیں جن کاموں کی افادیت تقریباً فوت ہو چکی ہوتی ہے اس طرح سے عوام کے لئے کوئی ایسا کام جس سے فوری فائدہ پہنچ سکے نہیں کیا جاتا۔
کبھی بجٹ، کبھی کچھ، تو کبھی کچھ سے بہلاوے دیے جاتے رہتے ہیں۔ پاکستان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں اپنی ضرورت کیلئے آئین تک معطل کر دئیے گئے۔ پاکستان کو کبھی لسانیت نے تقسیم کیا، کبھی فرقہ واریت نے نقصان پہنچایا تو کبھی پاکستان کسی اور کی جنگ میں اپنا سارا وجود لہولہان کر بیٹھا۔
آج پاکستان حقیقت میں کسی ایسے جہاز کی صورت دیکھائی دے رہا ہے جو سمندر کے تھپیڑے کھا کھا کے بے حال ہو چکا ہے اور بظاہر تو نہیں لیکن اسکی مخدوش حالت جاننے والے دیکھ سکتے ہیں کہ کبھی بھی، کچھ بھی بہت زیادہ برا ہو سکتا ہے۔ اتنا برا کہ آپ کو باقاعدہ بھکاریوں کی طرح بھیک مانگنی پڑ سکتی ہے یا پھر اپنے قیمتی اثاثے گروی رکھوانے پڑ سکتے ہیں۔ پاکستان کو اس حال میں پہنچانے والے اتنے پیسے والے ہیں کہ اگر واقعی یہ ملک و قوم سے مخلص ہوتے تو نوبت اس نہج تک کبھی نہیں پہنچتی۔
ہم نے تقریباً لکھنے سے اپنے آپ کو باز رکھ لیا تھا اسی اثناء میں ارشد شریف شہید کا واقع ہوگیا اور رہی سہی جرات بھی گویا سسکیاں لینے لگی لیکن آج ایسا لگا کہ پاکستان کو ابھی میری ضرورت ہے ابھی لوگوں میں آگہی کا دیا جلائے رکھنے کی ضرورت ہے جو آنے والے وقت کا اندازہ لگانے کے اہل ہو سکیں اور جان بوجھ کر کسی ایسی غلطی کے مرتکب نہ ہو جائیں کہ جس کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے۔
وقت ہم سب سے پاکستان کا ساتھ دینے کا تقاضہ کر رہا ہے وہ ہم سے نہ صرف ہماری نسلوں کی حفاظت کا ساتھ مانگ رہا ہے بلکہ وہ دنیا میں بتدریج ہونے والی جگ ہنسائی سے بھی پناہ کی درخواست کر رہا ہے، پاکستان کو آج پھر پاکستانی قوم کی ضرورت ہے اگر ہم نے اس ضرورت کے وقت میں پاکستان کا ساتھ نہ دیا تو پاکستان کو کچھ نہیں ہوگا، خاکم بدہن ہم پاکستانی کہلانے کے قابل نہیں رہینگے۔
تو اٹھ جائیں اور ہر اس فرد کو جھنجھوڑیں جو پاکستانی ہونے کا دعویدار تو ہے لیکن پاکستان کی ضرورت سے بے خبر ہے، پاکستان کسی سرطان میں مبتلاء مریض کی طرح کسی شوکت خانم کینسر ہسپتال میں داخلے کیلئے اپنے عزیزو اقارب کا انتظار کر رہا ہے چلیں آئیں آج پھر ہمارے پاکستان کو ہماری ضرورت ہے۔ ہم وقت کو ہمیں روندھنے کی اجازت نہیں دینگے ہم پاکستان کے ساتھ کھڑے رہینگے۔