ہم اپنے اندر ایک بھوت بنگلا لئے گھوم رہے ہیں یا سب انسانوں کے اندر یہ بھوت بنگلہ ہوتا ہے، شائد یہ بھوت بنگلہ وقت، حالات اور واقعات مل کر بناتے ہیں جس میں تزئین و آرائش اور مکینوں کا دعوت نامہ دکھ اور مایوسی کے ذمہ ہوتا ہے۔ ویسے اس بھوت بنگلے کی بنیاد باقاعدہ طور پر بچپن میں رکھ دی جاتی ہے جب ہماری سرگرمیوں کو محدود رکھنے کیلئے ہمارے بڑے ہمیں ڈراتے ہیں کہ وہاں اندھیرا ہے وہاں مت جانا، وہ سنسان جگہ ہے وہاں اکیلے نہیں جانا۔
بھوت بنگلے کی دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی کو بتایا بھی نہیں جا سکتا کہ آپ کے اندر ایک بھوتوں کی آماج گاہ بھوت بنگلہ ہے۔ بھلا اس بات پر کون یقین کرے گا اور کس طرح سے اس بھوت بنگلے کو دیکھ سکے گا؟ موت برحق ہے تو پھر خوف کس بات کا لیکن اپنے اندر موجود بھوت بنگلے کا کیا کیا جائے اور اس میں رہنے والے بھوتوں سے کیسے خوفزدہ نا ہوا جائے۔ یہ مارتے نہیں ہیں بلکہ موت کے قریب لے کر واپس لے آتے ہیں اور پتہ نہیں کب ایسا ہو کہ ان کا ارادہ بدل جائے اور واپس ہی نا لائیں۔
بھوت بنگلے والے بہت شور کرتے ہیں۔ یہ سامنے والے کے اندر بسنے والے بھوتوں کی حرکتوں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ ان کی باہمی ہم آہنگی انہیں بتا دیتی ہے کہ سامنے والے بھوت اس سے کیا کروانا چاہ رہے ہیں؟ جیسے جیسے آپ اور سامنے والے کی ملاقات کا دورانیہ بڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے یہ بھوت حرکتوں میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ کبھی تو یہ بھوت بھی سامنے والے بھوتوں سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور اپنے بھوت بنگلے میں چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں اور سناٹا ہو جاتا ہے۔
اور جب کبھی جب یہ ضد پر آ جاتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ اس جسدِ خاکی کو جو ان کے رہنے کی اماج گاہ ہے، کو مسمار کر دینگے اور کہیں دوسری جگہ ہجرت کر جائینگے، لیکن ایسا بھی نہیں ہوتا (نامارتے ہیں اور نا ہی مرنے دیتے ہیں )۔ پھر معلوم نہیں کیا ہوتا ہے، وہ سب جیسے آہستہ آہستہ سو جاتے ہیں اور ان کے سونے کی مدت طے نہیں جیسے جاگنے کی مدت کا پتہ نہیں ہوتا۔
ان کی خاموشی ایسی لگتی ہے کہ جیسے سارے بھوت بنگلے کے اندر ایک دوسرے سے چھپ جاتے ہیں یا شائد کسی بات پر اتفاق نا ہو پانے پر یعنی کس بات سے زیادہ خوفزدہ کرنا ہے، کس خوف سے باز رکھنا ہے الگ الگ ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ کچھ بھی تو واضح نہیں ہوتا۔ من میں بھلا جھانکے تو کون، من بھوتوں کا بنگلہ جو ہے۔ ذہن ایک سوال اٹھاتا ہے کہ کہیں کوئی ان بھوتوں کا نجات دہندہ بھی تو ہو گا۔ جو من کے بنگلوں کو ان بھوتوں سے نجات کے اسباب پیدا کرتا ہو گا۔
ان گھس بھیٹیوں سے من کو آزاد کرتا ہو گا اور وہ جو بھوت بنگلا ہے اسے اس کے مکین کے حوالے کراتا ہو گا۔ اس نجات دہندہ کی تلاش جاری تھی کہ کسی نے بتایا کہ نجات بھی ہے اور نجات دہندہ بھی لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ انہوں نے اپنے وقت کا دائرہ بدل لیا ہے۔ یا شائد انہوں نے اپنا خطہ یا پھر سیارہ بدل لیا ہے اب ان سے ملنا بہت مشکل دیکھائی دے رہا ہے۔ پہلے من کے بنگلے میں یہی رہتے تھے لیکن انسانوں نے ان کی ایک نہیں مانی اور پھر من خالی ہو گئے اور خالی من دیکھ کر بھوتوں نے بسیرا کر لیا۔
کہنے والا کہہ رہا تھا کہ اب تو بس انہی بھوتوں کے ساتھ جینا پڑے گا اور اس دارے فانی سے کوچ کرنے تک ایسے ہی ہونکوں کی طرح بولائے بولائے رہنا پڑے گا۔ زندگی کی امنگ نے ایک سوال اٹھایا کہ کیوں نا ان بھوتوں سے دوستی کر لی جائے اور جب ان کے ساتھ رہنا ہی طے پایا ہے تو پھر خوف سے چھٹکارا پا لیا جائے۔ من میں بھوچال سا پیدا ہوا اور سارے بھوتوں نے گویا ایک ساتھ بھاگ دوڑ شروع کر دی۔ بھوتوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ خوف ختم ہو جائے گا تو ہمارا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔
یہ بھوت بھی عجیب ہیں اور ان کے ڈرانے کے انداز اور بھی عجیب ہیں۔ ایک ایسا ڈر جس کی بازگشت کیلئے یہ اپنا کوئی بہت بڑا بھوت تعینات کر دیتے ہیں۔ وہ ڈر یہ ہوتا ہے کہ اب سارے بھوت اس بھوت بنگلے کو تباہ کرنے والے ہیں۔ اور ایسا احساس دلاتے ہیں جیسے یہ بھوت کسی خودکش بمبار کے جسم پر بندھے ہوئے بم ہوں اور بس دھماکا ہونے کو ہی ہو۔ ہم اپنے کانوں پر ہاتھ رکھے گھنٹوں اس خوف کے انتظار میں گزار دیتے ہیں کہ دھماکا اب ہوا کہ کب ہوا۔
دھماکہ نہیں ہوتا خوف ہمارے پورے وجود میں سرائیت کر جاتا ہے اور جیسے مفلوج کر کے رکھ دیتا ہے۔ ان بھوتوں کے پاس ایسی طاقت ہوتی ہے کہ یہ آپ کو باہر کی دنیا سے منقطع کر دیتے ہیں۔ آپ سب جگہ ہوتے ہوئے بھی کہیں نہیں ہوتے۔ ان کی دھما چوکڑی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ آپ کو لئے گھومتے رہتے ہیں۔ دنیا کی نظروں میں آپ ایک عام انسان کی طرح دیکھائی دیتے ہیں کیونکہ آپ کے طبعی برتاؤ پر یہ بھوت اس وقت تک اثر انداز نہیں ہوتے جب تک آپ اپنا آپ ان کو باقاعدہ سونپ نہیں دیتے۔
لڑنے کی سکت رکھنے والے ان بھوتوں سے لڑتے ہیں شدید مزاحمت کرتے ہیں۔ اکثر دیکھا یہی جاتا ہے کہ سوائے ہلکان ہونے کے اور کم ہی کچھ حاصل ہوتا ہے۔ فنا میں بقاء کے سوا کوئی حل نہیں سجھائی دیتا۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہوئے ہیں جہاں، بدعنوانی، بے ایمانی، ایمان فروشی، جھوٹ، دھوکے بازی، حسد، قتل و غارت گری، جسم فروشی، نشہ، دغا بازی، چور بازاری، بھتہ خوری، گران فروشی، وغیرہ بھوت بن کر ہمیں اپنے قبضے میں کئے ہوئے ہیں اور ان سے بچنے کا سوچنا بھی محال ہے۔
ان سے بچنے کی کوشش میں ساری زندگی گزار دیتے ہیں اور پھر نسل نسل در یہ سلسلہ چلتا ہی جا رہا ہے۔ ہم انہیں بھوتوں کیساتھ اپنی عبادت گاہوں میں بھی جاتے ہیں یہی بھوت ہمیں اپنے ربّ کے حضور سجدہ کرنے کی اجازت تو دیتے ہیں لیکن تعلق قائم کرنے سے باز رکھتے ہیں۔ بھوت بنگلے میں گھنٹیاں بجنا شروع ہو جاتی ہیں اور جلد از جلد باز آنے کی دھمکیاں سنائی دینے لگتی ہیں۔ یہ بھوت اپنے ناپاک عزائم کے وجود کے ساتھ بہت طاقتور ہو چکے ہیں۔
کیونکہ ہم نے ان سے نجات دہندہ کو ناراض کر دیا ہے اب یہ بھوت ہم سے تدبیریں بھی وہ ہی کرواتے ہیں جن سے یہ خوش ہوتے ہیں جن سے ان کی بھوک مرتی ہے۔ ہمیں ان تدبیروں کا پتہ چلانا ہو گا ورنہ ایک ایک کر کے ہم سب ان بھوتوں کے ہاتھوں خوف کے مارے خوفزدہ مرتے چلے جائیں گے۔ مرنا تو برحق ہے لیکن کیا ہم وہاں جا سکیں گے جہاں ہم جانے کیلئے اس دنیا میں آئیں ہیں۔ کیا ہم اپنے خالق اور اپنے نجات دہندہ کے سامنے کھڑے ہونے کی جسارت کر سکیں گے؟ ایسا اس وقت تک ممکن نہیں ہو گا جب تک ہم من کے بنگلے ان بھوتوں سے خالی نہیں کروا لیتے۔