پاکستان پانی کے بحران سے دوچار ہے اور جیساکہ ماہرین باربار اس بات کی تنبیہ کر رہے ہیں کہ اگر ابھی سے کچھ منصوبہ سازی پر کام شروع نہیں کیا تو بہت جلد ہمیں خشک سالی کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہوجانا چاہئے۔ ازراہ تکلف صرف اتنا تذکرہ کردینا چاہتا ہوں کہ دنیا میں کہیں اور ہونے والی خشک سالی کا تو علم نہیں ہے لیکن پاکستان کا ایک علاقہ تھر ہے جہاں جاکر خشک سالی کے اثرات باآسانی دیکھے جاسکتے ہیں، وہاں کے لوگ جس طرح کی زندگی گزار رہے ہیں کہ زندگی بھی شرمندہ ہے۔
پاکستان میں نہ توپچھلے ستر سالوں میں کوئی سیاسی نظام بدلہ اور نہ ہی سیاسی مزاج بدلا گویا ہم لوگ انتہائی یکسانیت کا شکار ہوچکے ہیں اور ہمیں اس بات کا علم ہی نہیں ہے۔ اپنی اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں اور خصوصی طور پر نئی نسل کی کاروائیوں پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہ دیکھ کر بہت حیرانی ہوگی کہ مشکل سے یہ لوگ کسی ایک جگہ بیٹھ سکتے ہیں یعنی نئی نسل یکسانیت سے کتنی گھبرائی ہوئی ہے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے بڑے کبھی غصے میں ہوتے تو کسی ایک جگہ بیٹھنے کو کہہ دیتے تھے تو مجال ہے جناب کہ کوئی بچہ اس وقت تک وہاں سے ہل نہیں سکتا تھا تاوقتہ کھانے یا آذان کا وقت نا آن پہنچتا۔ یہ نئی نئی سیاسی جماعتوں کا وجود میں آنا بھی اسی امر کا نتیجہ سمجھا جاسکتا ہے، وہی چہرے، وہی باتیں اور وہی گھسے پٹے وعدے کچھ بھی تو وقت کیساتھ ہم آہنگی نہیں رکھتا جبکہ یہ نئے لوگ وقت کو لگام ڈالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
حالات کا ایسا بدلاؤ دیکھنے میں آرہا ہے کہ لوگ موروثی سیاست کو بھی رد کرتے محسوس ہورہے ہیں کیونکہ عوام کو پتہ ہے کہ وقت کیساتھ یہ شکلیں بدلی ہورہی ہیں درحقیقت ڈوریں وہی لوگ ہلائینگے اور ہمیں بدحال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑینگے۔ عوام ایسے ستائے ہوئے ہیں کہ یہ تو پرانے لوگوں کی بات تک سننے کو تیار نہیں دیکھائی دے رہے۔
کیا وہ وقت آچکا ہے کہ لوگ اپنی اپنی اصلاح کیساتھ اپنے سے وابسطہ لوگوں کو بھی سوچنے پر اکسانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک معزز سیاستدان کا کہنا ہے کہ نوجوان نسل سماجی میڈیا سے دور رہے جسکی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ یہ نئی نسل کو ورغلا رہا ہے، اب ان صاحب کو کوئی یہ بتائے کہ جوسماجی میڈیا کو چلانے والے ہیں وہی سماجی میڈیا سے دور رہے، اب اس بات سے ہمارے سیاسی مزاج کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اگر کبھی ملک کیلئے تو بہت دور کی بات ہے اپنے اپنے حلقے کیلئے کچھ کیا ہوتا تو یقیناًحالات اس کے برعکس ہوتے۔ اب تو لگتا ہے انتخابات کے امیدواران اپنے اپنے گھروں سے بھی کم کم نکل رہے ہیں۔
کیا اس سے پیشتر کسی نے ایسا سنا یا دیکھا کہ انتخابی حلقے میں آنے والے امیدوار سے کسی علاقے کے مکین کی اتنی جرات یا مجال ہوئی ہو کہ وہ محترم اعلی مرتب امیدوار سے کوئی سوال کرلے یا پچھلے اقتدار کا حساب مانگ لے یا اتنا پوچھ لے کہ ان گلیوں کے کتنے چکر لگائے ہیں جی نہیں جان سب کو پیاری تھی سب کو اپنے اپنے بچوں کی فکر لاحق تھی۔ لیکن اب کیا ہوا ہے ہر امیدوار کے حلقے والے اس سوال کررہے ہیں جہاں بس چل رہا ہے وہاں تو گریبان بھی پکڑ رہے ہیں۔ دراصل وہ مثل بہت مشہور ہے کہ مرتا کیا نا کرتا۔
یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے ؟ کیوں تبدیلی تبدیلی کے نعرے لگ رہے ہیں؟ انکی وجوہات سب جانتے ہیں یہ انہی لوگوں کا کیا دھرا ہے کہ جنہوں نے ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کو ہمیشہ ترجیح دی اور ملک کی حالت خستہ ترین ہوتی چلی گئی۔ ملک میں تو عوام رہتی ہے پاکستان کا کوئی بھی شہر ہو لاہور ہو کراچی ہو یا پھر تھر ہو مسائل عوام کو جھیلنے ہے اور عوام ہر بار ان پر بھروسہ کرتی چلی آرہی ہے کہ یہ ہماری بھوک پیاس اور علاج معالجے کا بندوبست کرینگے لیکن وہ بچے انہی کے ہیں جو کہتے ہیں اگر ان غریبوں کے پاس روٹی کھانے کونہیں ہے تو یہ پیزا یا کیک کھالیں، ان امراء کے بچوں کو تو پتہ ہی نہیں کہ بھوک کیا ہوتی ہے پیاس کیا ہوتی درد میں تڑپنا کیا ہوتا ہے گھنٹوں لائنوں میں لگنا کیا ہوتا ہے۔ شائد پڑھنے والوں کو یہ باتیں جذباتی لگ رہی ہوں لیکن ذرا سوچئے کیا حالات اس سے مختلف نہیں ہیں اور اگر ابھی تک آپ اس نہج پر نہیں پہنچے ہیں تو تیار رہیے بہت جلد آپ کیساتھ بھی ایسا ہی ہوجائے گا۔ ہمارے حکمرانوں کا کیا وطیرہ رہا ہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے جب برا وقت آیاراتوں رات ملک چھوڑ کر دنیا کے کسی بھی کونے میں پہنچ جاتے ہیں اور اس سے کہیں زیادہ عیش و آرام سے زندگی گزارنا شروع کردیتے ہیں۔
آج اہم سیاسی ستون متزلزل سے محسوس کئے جارہے ہیں۔ لاہور میں گزشتہ دنوں ہونے والی بارشوں نے پنجاب حکومت کی سارا کیا دھرا سامنے کھول کر رکھ دیا ہے، کیا اسے قدرت کی طرف سے انکے کئے کی سزا سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالی نے لوگوں کی آنکھوں پر سے اس پٹی کو اتارنے کی کوشش کی ہے جو سال ہا سال سے بندھی ہے۔ کراچی میں تو آج بھی بارش کا انتظار ہے اور ویسے بھی کراچی شہر میں تو کسی نے کچھ کیا ہی نہیں ہے سوائے جلسے، جلوسوں یا آپریشن کے لیکن یہاں بھی بارش سی محسوس کی گئی لیکن وہ تھی شائد پتھروں کی۔
وقت اور حالات سے ایسی باس آرہی ہے کہ جیسے پاکستان کی عوام پہلی دفعہ تمام نسلی، لسانی، فرقہ واریت، علاقائی اور ان جیسی تمام زنجیروں سے آزاد ہوکر اپنا حقِ رائے دہی۲۵ جولائی کو استعمال کرینگے اور اس پاکستان کی بنیاد رکھینگے جس کا خواب مصور پاکستان شاعر مشرق حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے دیکھا تھا، جسکی خاطر اپنی صحت و خاندان کی پروا کئے بغیر بانی پاکستان محمد علی جناح نے تگ و دو کی اور جسکی خاطر ہمارے آباؤ اجداد نے عزت، دولت، شہرت، حسب نسب سب کچھ تیاگ دیا تھا۔ یقین سے تو نہیں لیکن امید سے کہہ رہا ہوں کہ ۲۵ جولائی کے انتخابات میں کوئی بھی کامیابی حاصل کرے اور جیسی بھی حکومت عمل میں آئے لیکن وہ بدعنوانی سے پاک کام کرنے کی کوشش کریگی اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنائے گی۔