راستے پر بیٹھے ایک بزرگ نے سامنے سے گزرنے والی عورت کی خوبصورتی کی تعریف کر دی جو اس عورت کے ساتھ چلنے والے شخص کو ناگوار گزری اور اس نے بزرگ پر ہاتھ اٹھا دیا اور آگے بڑھ گئے ابھی کچھ فاصلہ ہی طے کیا ہو گا کہ اس جوڑے کو حادثہ پیش آ گیا، آس پاس موجود لوگ اس سارے ماجرے کا مشاہدہ کر رہے تھے ان میں سے کسی نے بزرگ سے جا کر واقع سے آگاہ کیا اور اس اس جوڑے کے ساتھ پیش آنے والاحادثہ بیان کرنے کے بعد استفسار کیا کہ آپ نے انہیں بد دعا دی تھی جس کی وجہ سے انہیں حادثے نے آ لیا۔
بزرگ بولے، نہیں ایسا نہیں ہم دعا دینے والے لوگ ہیں، شائد ماجرا کچھ یوں ہوا ہو کہ ہم نے اسکے محبوب کی تعریف کی تو اسے برا لگا جس کا اس نے ردعمل ظاہر کیا اب شائد ہمیں بھی کوئی محبوب رکھتا ہو اور ہمارے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک اسے ناگوار گزرا ہو اور اس نے اسکا بدلہ لیا ہو۔ یوں تو دنیا میں ایسی مثالیں عام ملتی ہیں اور معلوم نہیں ایسے معاملات پر کتنے فساد ہوتے اور کس حد تک ہوتے ہیں۔
دوستی یاریاں ایسے ہی نبھائی جاتی ہیں بلکہ اگر کوئی دوست کسی جھگڑے سے لاتعلق ہو جائے تو اس کو سماجی نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ جن کا خمیر محبت کے عرق سے گوندا گیا ہو بھلا وہ لاکھ چاہتے ہوئے بھی کہاں نفرت کر سکتے ہیں، جب نفرت نہیں ہو گی تو نفی نہیں ہو گی اور بھلا کوئی کس طرح سے محبت کی خوشبو سے دور رہ سکے گا۔
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو مقرب ہوتے ہیں جو جڑے ہوئے ہوتے ہیں مگر دیکھائی نہیں دیتے مگر جب دیکھائی دیتے ہیں تو دیکھنے کے قابل نہیں سمجھے جاتے۔ تخلیق کار سے روٹھ جاؤ یا پھر تخلیق سے بات تو ایک ہی ہوتی ہے، سب ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اور جو اس تعلق کو توڑ لیتے ہیں وہ گھور اندھیرے میں پیش قدمی شروع کر دیتے ہیں اور ان کا کوئی بھی قدم انہیں اندھیرے میں موجود اندھے کنویں میں ہمیشہ کیلئے لے جاتا ہے۔
آج ہم ایک اصطلاح بہت سنتے ہیں جسے انگریزی زبان میں Standard Operating Procedure (SOP) کہا جاتا ہے یعنی کسی بھی کام کرنے کا ایک معیاری طریقہ کار بالکل اسی طرح سے ایک ایسا ہی واضح اور مدلل زندگی گزارنے کا طریقہ کار ہمارے لئے ترتیب دے کر اپنے پیارے محبوب ﷺ پر نازل فرمایا۔ ہدایت کی روشنی حالے کی مانند ہے جس کے قطر کا اندازہ لگانا ہمارے بس کی بات نہیں ہے اور نا ہی ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ یہ دائرہ گول ہے یا چکور یا پھر کسی اور زاوئیے کا ہے، یہ سب جاننے والا ہی جانتا ہے۔
اس قطر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی وضاحت کے ساتھ طریقہ کار رہتی دنیا تک کیلئے دنیا میں موجود ہے اور اسکی تعلیمات کو سمجھانے کیلئے ایک معلم حضرت محمد مصطفےٰ ﷺکے ذریعہ سے انسانیت تک پہنچایا اور آپ ﷺ کا ہر عمل اللہ کی رضا کیلئے رہا جو ہماری رہنمائی کا سبب بنا، دنیا اس کتاب کو واضح طریقہ کار کو قرآن مجید فرقان حمید کے نام سے جانتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح کرتے چلیں کے اس روشنی کے حالے سے باہر ایسا اندھیرا ہے کہ جس میں ہاتھ کو ہاتھ نا سجھائی دے۔
روشنی کے حالے میں داخلے کی بس ایک ہی شرط ہے اور وہ یہ ہے کہ بتائے گئے راستے پر، بتائے گئے عمل کیساتھ سفر جاری رکھا جائے۔ اس پر عمل پیرا ہو کر ہم اس قطر میں داخل ہو سکتے ہیں اور ربّ کی ناراضگی سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اس بات کی فکر تو سب کو رہتی ہے کہ جو آپ سے محبت کرنے والے ہیں یا تعلق دار ہیں ناراض نا ہوں جسکے لئے انکی پسند اور ناپسند کا خیال بھی رکھا جاتا ہے لیکن اللہ اور رحمت اللعالمین ﷺ کی ناراضگی سے ماورا ہو چکے ہیں۔
دنیاوی اعتبار سے یہ بات بہت عام ہے کہ اولاد کتنی ہی نافرمان کیوں نا ہو جائے لیکن اس سے ماں کبھی نہیں روٹھتی کسی نا کسی بہانے سے نافرمان اولاد کی خبر گیری کرتی ہی رہتی ہے، یہ ایک ماں کی محبت کا نمونہ ہے جس نے اولاد کو پیدا کیا ہے، دوسری طرف وہ ہے جس نے رہتی دنیا تک کیلئے اس تخلیق کو اپنی تخلیقات میں اول درجے پر فائز کر دیا ہے، امت محمدی ﷺ کو اپنی تمام امتوں پر فائز کر دیا ہے اور جو یہ باور کراتا ہے کہ میں اپنے بندے سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہوں۔
خالق کائنات نے دنیا کی نعمتیں کسی پر مخصوص نہیں کیں، تھوڑی سی تگ و دو کرنی پڑتی ہے ہر شے دنیا کے کسی بھی کونے میں دستیاب ہو جاتی ہے، دستیابی کو یقینی بنایا ایک بات ان نعمتوں تک رسائی کے ذرائع سے بھی آگاہ کیا گیا ہے، جو جتنی محنت کرے گا وہ اتنی پر تعیش زندگی گزارنے کا اہل ہو سکتا ہے لیکن یہ کلیہ صرف دنیاوی زندگی کیلئے ہے۔ اس کا تعلق دینوی زندگی سے نہیں جوڑا جا سکتا سوائے اسکے کہ دونوں میں محنت کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔
ایک طرف محنت ہوتی، بھاگ دوڑ ہوتی ہے کہ کس طرح سے اپنی زندگی کو پر تعیش بنایا جائے اور دنیا میں موجود ہر سہولت کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ کسی معمولی سی غلطی کو اگر نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھ جائیں تو یہ معمولی سی غلطی وقت کے ساتھ ساتھ بہت بڑے حادثے کا سبب بن جاتی ہے۔ ہم اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ نقصان کے پیچھے بہت سارے محرکات پوشیدہ ہوتے ہیں جن میں غلط فہمی سے لیکر آگہی کی غلط ترویج تک شامل ہیں۔
ہم بطور انسان اپنی طاقت کے دور میں کمزوری سے ملاقات کو اپنی شان میں گستاخی سمجھتے ہیں۔ اعتدال نہیں ہو گا تو پھونچال ہو گا جو کچھ بھی خراب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہم دھیان دیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ ہم جس مشکل میں پھنس گئے ہیں اس کا جال بھی ہم نے خود ہی بنا تھا۔ بہت مشہور ہے کہ دھوکا اپنے مرکز سے بہت پیار کرتا ہے یعنی جو دھوکا دے رہا ہوتا ہے اسے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ آنے والے کسی دن میں یہ دھوکا واپس پلٹ کر اسکے پاس آئے گا۔
گزشتہ دنوں ہونے والی بارشیں اس حد تک ہو گئیں کہ تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ پاکستان کے پاس کتنے وسائل موجود ہیں اس بات سے ہم پاکستانی تو کیا ساری دنیا ہی واقف ہے۔ سیلاب نے سب کچھ تباہ و برباد کر کے رکھ دیا اور سیلاب کی بے رحمی نے یہ بھی نہیں دیکھا کے کس کا گھر کچا ہے، کس کے گھر میں معذور ہے اور کون سی چھت ایسی ہے جس کے نیچے رہنے والوں کے پاس سوائے اس کے کچھ بھی نہیں ہے۔
بظاہر ہم کسی کو اس سیلاب کا کیا کسی بھی قدرتی آفت کا ذمہ دار نہیں ٹہرا سکتے، کیونکہ جو کچھ بھی اس ملک میں ہو رہا ہے من حیث القوم ہم سب اسکے ذمہ دار ہیں۔ آپ نے یہ بھی کہا ہو گا یا پھر کہتے سنا ہو گا کہ آج ہماری قوم میں وہ ساری برائیاں عام ہو چکی ہیں کہ جن کی بنیاد پر ایک ایک قوم کو نیست و نابود کیا گیا۔ سماجی ابلاغ ایک ایسا ثبوت بن گیا ہے کہ جہاں سب کچھ دیکھا اور سنا جا سکتا ہے جس کو کوئی غلط بھی ثابت نہیں کر سکتا۔
اس سیلاب کو سمجھنے والوں نے اپنے گناہوں کی بدولت قدرت کا عذاب سمجھا، اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھا اور سنا گیا کہ اب بھی اگر نہیں سدھرے تو پھر کہیں پتھروں کی بارش ہمیں نیست و نابود کرنے کیلئے نا آ جائے۔ ان دونوں باتوں کا اگر من حیث القوم ہمارے اعمال پر فرق پڑ جائے تو بہت اچھی بات ہے اگر ہم بطور قوم توبہ کر لیں اور سیدھے راستے پر جس پر چل کر روشنی کے حالے میں داخل ہوا جا سکتا ہے چلنے لگے تو بہت اچھی بات ہے۔
لیکن یہ جان لیجئے ربّ نہیں روٹھتا بس ہم ہی ہیں جو ربّ کی طرف جانے والے راستے سے رخ موڑ لیتے ہیں تو ہم خود ہی دلدل یا کھائی کا انتخاب کرتے ہیں پھر ہم یہ کہنے کا جواز نہیں رکھتے کہ ربّ روٹھ گیا ہے۔ صراط مستقیم پر لوٹ آئیے اور ہدایت کے حالے میں داخل ہو جائیے۔