بھائی ایک چھوٹا سا سبق ہے کارپوریٹ اور پروفیشنل لائف کے لیے۔ زیادہ وضاحت نہیں دے پاؤں گا کہ آفس کا کچھ اور گھر کا ڈھیر سارا کام کرنا ہے۔ شام سے سلمان بھائی کے ساتھ ویک اینڈ بھی شروع کرنا ہے۔
کرونا کے بعد سے ورک فرام ہوم کا کلچر رائج تھا۔ میں اور میری ٹیم کسی حد تک اسے حرام خوری فرام ہوم سمجھ بیٹھے۔ پراجیکٹ میں تکنیکی مسائل آتے رہے۔ ہم یا تو گولی کراتے رہے یا سستی دکھاتے رہے۔ کسٹمر کے ساتھ تعلقات شدھ مضبوط تھے۔ مزید برآں دیگر پراجیکٹ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بھی سات آٹھ برس ساتھ کام کر کے دوستیاں بنا لی تھیں۔ سو حرام خوری بھی ہینڈل کر لیتے تھے۔
پھر یوں ہوا کہ کسٹمر کی طرف بڑے پیمانے پر تبادلے وغیرہ شروع ہوگئے۔ ساتھ ہی ساتھ سٹیک ہولڈر جو دراصل ہماری طرح ایک اور Managed Service Provider تھے وہ بھی کسی عتاب کا شکار ہوگئی۔ ہم نے قریب این دہائی میں جو دوستیاں یاریاں گانٹھی تھیں تقریباً سب ہی کھڈے لائن لگ گئے۔ یہ سب سال کے اندر اندر ہوا۔ ہمیں وقت پر یہ سب کچھ دیکھ سن اور سمجھ کر اپنی حرام خوری سے باہر آجانا چاہیے تھا مگر نہیں آئے۔
اچھا کارپوریٹ سیکٹر میں جہاں آپ دوطرفہ دلچسپیوں کی بنیاد پر اتحاد قائم کرتے ہیں وہیں دشمنیاں بھی پالتے ہیں۔ روانی میں ہم بہت سے دوست بناتے ایک آدھ کو پیل بھی دیتے ہیں۔ اور کھڈے لائن لگنے والے لوگ ہاتھ میں پکڑے انتظار کر رہے ہوتے ہیں کہ کب آپ ان کے ہاتھ تلے آئیں۔ اور زندگی کے مضبوط ترین مشاہدات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسا ہو نہیں سکتا آپ کسی کے ہاتھ کے نیچے آئیں اور پھر کبھی بہ کبھی وہ آپ کے ہاتھ کے نیچے نہ آئے۔ سستی اور کاہلی میں ہم یہ اہم سبق بھی بھول گئے تھے۔
مہینے پہلے کسٹمر نے معاملات کو خطرے ناک رنگ دے دیا۔ شکایات در شکایات ہوئیں اور پچھلے دو سال کے مسائل کھود کھود کر سامنے لانے لگے۔ وہ بھی ایسے کہ یومیہ پانچ نئے مسائل سامنے لاتے اور اگلے روز نئے پانچ کے ساتھ پچھلے پانچ پر ریمائینڈر ای میل بھی پھینک دیتے۔
لگ گئے گھوڑے۔۔
اب پوری ٹیم کو ہوش آیا۔ اتنی لکڑیاں پیل رہے تھے کہ پہلے ایک ڈیڑھ ہفتے تو سمجھ ہی نہیں آیا کہ کون سی لکڑ بڑی ہے کون سی چھوٹی۔ پھر ہم نے مل بیٹھ کر تعین کیا کہ سب سے بڑی دو تین لکڑیاں کون سی ہیں۔ اس کے بعد کوشش کرنا شروع کی کہ انہیں نکالا جائے۔ اب ہوتا یہ تھا کہ ہم ایک مسئلہ حل کرنے بیٹھتے، کوئی دو گھنٹے تک اس کا کوئی سرا ہاتھ لگتا کہ دوسرا مسئلہ شدت کے ساتھ ہمارے منہ پہ مار دیا جاتا۔ وڑ گئی توجہ۔ چلو اب دوسرے مسئلے کو دیکھو۔ اس سب کے دوران وہ ساٹھ پھونک حضرات بھی متحرک ہوکر پوری یکسوئی، توجہ اور انہماک کے ساتھ ہماری لینے پر جت گئے جن کی کبھی نہ کبھی ہم لے کر چھوڑ چکے تھے۔ حالات "ٹیٹ" تھے۔
کوئی ڈیڑھ ہفتہ باچیز اور باچیز کی team نے حقیقتاً سولہاں سولہاں گھنٹے کام کیا۔ تین چار روز ایسے گزرے کہ ساتھ والے کمرے میں موجود میکائیل کو بھی سوائے سکول سے واپس لاتے پانچ منٹ کی ڈرائیو کے، میں دیکھ نہیں سکا۔ کھانا بھی ہوم آفس میں۔ واش روم ساتھ ہی ہے۔ بس اتنا معلوم تھا کہ صبح اٹھا، کام شروع کیا۔ رات چار بجے تک کام کر کے واپس نیند۔
اس دوران سب سے بڑا مسئلہ، جو کہ اس خرافاتی تحریر کا لب لباب بھی ہے، وہ یہ رہا کہ جب ہم پر وٹہ زنی ہو رہی تھی تو ہمیں بڑی تکلیف ہوتی کہ یار یہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ لیکن اس دوران زندگی کا اور سبق یاد کیا اور بار بار یاد کیا کہ بیٹا، جب تک اپنے اینڈ کے معصومانہ مسائل ختم نہیں کرتے کسی اور کے بدنیتی پر بھی بات کرنے کی اہلیت نہیں رہتی۔
ڈیڑھ دو ہفتے جت کر کام کیا۔ کھوتوں کی طرح کام کیا۔ ہر بددیانت کی بددیانتی پر دل جلانا ختم کر کے ایک ایک کر کے اپنی طرف کے مسائل لسٹ ڈاؤن کیے، اور سب سے بڑی لکڑی نکالنے پر مرتکز ہوئے۔ اس دوران اہم ترین سرگرمی team activity رہی۔ جہاں ایک ڈاؤن محسوس ہوتا اسے شغل مذاق کے ذریعے cheer up کرتے۔ ہمارے ایک ٹیم ممبر کی والدہ بیمار تھیں۔ ہم نے اسے پاکستان بھیج کر ساتھ ریموٹلی کام کرنے پر آمادہ کیا۔ دن میں کئی کئی گھنٹے ایک ساتھ کال پر رہتے حالانکہ کام کسی ایک یا دو کا ہوتا۔
اور پھر آخرکار گنجلک قسم کے مسئلے کا سرا ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہم اس تک پہنچ ہی گئے۔ مسئلہ بھلا کیا تھا؟ ایک عدد نیٹورک لوڈ بیلینسر بھونسری والا http ریکویسٹ اس وقت بلاک کرتا جب وہ ایک مخصوص سائز سے اوپر ہوتی۔ اب یہ مسئلہ پکڑنا شدھ اوکھا تھا کیونکہ کلائینٹ سرور کمیونیکیشن پرکھتے ہوئے ایک تو اے پی آئی کالز کسی مخصوص پیٹرن کے بغیر ناکام ہو رہی تھیں، دوسرا، failure بھی ببانگ دہل فیلیور نہیں تھا۔ لوڈ بیلینسر ف چ ناکامی کی صورت میں بھی ریسپانس دیتا مگر ڈیٹا ٹائپ جاواسکرپٹ کی بجائے ایچ ٹی ایم ایل کر دیتا، ریکویسٹ فیلیور تب بھی نہیں دیتا تھا۔
تو بھائیو، تے خواتین۔۔ کوئی مہینہ بھر کی بالعموم اور دو ہفتوں کی بالخصوص پیلم پالی سے گزرنے کے بعد بالآخر گزشتہ روز کی پرنور صبح ہم سب سے بڑی دو لکڑیاں نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ اور اس کامیابی کے دوران منفی جذبات سے حتی الامکان نبرد آزما رہنا اور اپنے اعصاب پر قابو رکھنا اہم رہا۔ مزید برآں اس تمام دورانیے میں ہم نے کسی ساڑ پھونکیے کو بھڑک کر جواب نہیں دیا۔ بس خاموشی سے سہتے رہے اور نوٹ کرتے رہے کیونکہ ہر گتے کا ایک دن ہوتا ہے۔ کل تک ان کا تھا، چند دن میں ہمارا آجاوے گا۔ مزید برآں، باچیز پچھلے چند روز قدرے غائب رہنے کے بعد اگلے چند دن میں واپس اپنی روٹین پر بھی آجائے گا۔
مورال آف دی سٹوری یہ کہ بھیا۔۔ کسی کو پلٹ کر جواب دینے سے پہلے اپنا اینڈ دیکھ لیں، کلئیر ہے یا نہیں۔ کلئیر ہو تو سیدھا سیدھا جہاد شروع کر دو۔ وگرنہ کانے رہو گے۔ اور کانا بندہ زیادہ دیر ایک جگہ ٹک نہیں پاتا۔ کانے کو آخر میں لات پڑتی ہے تو پھر وہ ڑنڈی رونا شروع کر دیتا ہے۔۔ میرے پاس حکومت تو تھی، اختیار نہیں تھا، وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔