حیات کی چالیسویں خزاں ابھی دیکھنی ہے۔ ہاں داڑھی کے چند بال سفید ہو چکے ہیں مگر سر کا ہر بال سیاہ ہے۔ یہی حال بدن کے جغرافیے پر قابض دیگر مقامات کا بھی ہے۔ گویا آثار قدیمہ ہونے کی کوئی خاص طبعی علامات ابھی نمودار نہیں ہو پائیں۔ دل و دماغ مگر کسی اور ہی عہد کا اعلان کرتے ہیں۔
ایک زندگی ملی۔ جیسے جنگل میں مور ناچا نہیں دیکھا ویسے ہی عالم برزخ بھی ابھی دیکھنا ہے۔ سات جنم تو نہیں معلوم مگر ایک زندگی میں جانے کتنے ہی جنم لیے جا چکے ہیں۔ طبیعت اب اچاٹ ہونا مانگتی ہے۔ ایسا نہیں کہ اچاٹ ہو چکی، بس تقاضہ کرتی ہے کہ اب اچاٹ کر لو۔ ذمہ داریاں نہ ہوں تو بندہ کسی جنگل میں نکل جانے کو ترجیح دے۔ لیکن میں کون سا انوکھا نمونہ ہوں؟ یہ تو سبھی کے حالات ہیں۔ یوں کہہ لیجئے کہ جیسے کہانی دل دل کی؟ شاید؟
بچپن کی کئی یادیں ہیں۔ ایسی یادیں جن سے دل کھل اٹھتا ہے۔ پشاور کے مضافات میں جہاں تب سفید پوش باپ کے لیے گھر بنانا قدرے سہل تھا، کی عیدیں یاد آتی ہیں۔ عید پر پٹاخوں والی پستول یاد آتی ہے۔ یوم آزادی پر جھنڈیاں خریدنا اور گھر سجانا یاد آتا ہے۔ یہ اچھی یادیں ہیں۔ بری یادیں بھی یاد کرنے پر یاد آ ہی جاتی ہیں۔ واحد چچا کی دھوم دھام سے شادی یاد آتی ہے اور پھر انہی چچا کی اداسی سے بھرپور وفات یاد آتی ہے۔ یاد کرنے پر ماضی کی جیب سے کوئی نہ کوئی کھرا یا کھوٹا سکہ برآمد ہو ہی جاتا ہے۔
کچھ آگے جائیں تو ہر سال ریزلٹ والے دن پورے سکول کے سامنے پہلی یا دوسری پوزیشن پر کھڑے ہوکر ٹرافی یا شیلڈ لینا یاد آتا ہے۔ لڑکپن کی بغاوت یاد آتی ہے۔ وہ خود سری جس پر پشیمانی ہی پشیمانی ہے، وہ بھی یاد آتی ہے۔ ابا مرحوم کا شدید جلال اور اس کے ساتھ ساتھ شدھ فرینکنیس یاد آتی ہے۔ کہا اپنے پیر پر کلہاڑی مارنا کیا ہوتا ہے۔ جواب دیا گلی کے نکڑ پر ایک کتا بیٹھا ہوتا ہے سکون سے، کسی دن اس کی مقعد شریف میں انگشت مستعمل کر کے دیکھو، سمجھ آجائے گا۔ بھئی کیا ہی کمال انمول ہیرا تھے صدیقی صاحب۔ بس ہم نے وقت پر وہ قدر نہ کی جو ان کا حق اور ہمارا فرض تھا۔
لیکن صاحب۔۔ زندگانی تو اسی کا نام ہے۔ ہر گزرتا پل جس کا دورانیہ بھلا کیا ہوتا ہے؟
فقط ایک پل۔۔
اور ہر پل بس پل بھر میں ایک نئی یاد بن جایا کرتا ہے۔ سو زندگی کے نام پر آپ کی طرح میرے پاس بھی یادیں، یادیں اور فقط یادیں ہی باقی ہیں۔ زندگی شاید انہی یادوں کا دوسرا نام ہے۔ یادیں ختم تو زندگی ختم۔ زندگی ختم تو یادیں۔
جوانی بھی یاد آتی ہے۔ ہر گزرتے پل میں ہماری سب سے بڑی عیاشی ہماری قوت فیصلہ ہے۔ سمجھ کیجئے کہ ہر پل ایک input ہے، اس پل میں ہونے والا فیصلہ اس input پر نافذ ہوا transfer function یا processing جبکہ ان کے نتیجے میں ملنے والی یاد ایک عدد output ہے۔ جوانی کی اچھی اور بری دونوں طرح کی processing یاد آتی ہے۔
ڈائنا کی موت بھی یاد آتی ہے۔ نصرت کی حیات بھی یاد آتی ہے۔
سانحہ اے پی ایس بھی یاد آتا ہے۔۔
یاد آنے کو بہت کچھ ہے۔ کیا کچھ یاد کیا جائے کہ اگر حساب لگایا جائے تو پیدائش سے لے کر اب تک زیادہ نہیں بس 1,177,718,404 سیکنڈ بنتے ہیں۔
کیا کیا یاد کریں۔ اور پھر۔۔ کیوں یاد کریں؟
لیکن۔۔ کیوں نہ یاد کریں؟
جانے اپنی یادوں میں کتنے guilts ہیں، کتنی خوشیاں ہیں، یاد نہیں۔ ہاں مگر اتنا ضرور ہے کہ ڈپریشن میں جانے کی بجائے کوشش ہوتی ہے کہ ہنسا جائے مسکرایا جائے، بس گپ لگائی جائے۔
I sometimes wish to be a comedian.
اور کامیڈین سے ذکر آتا ہے ذاکر خان کا۔
فی الوقت زندگی کے ایسے دور سے گزر ہے جہاں ذاکر خان ہنساتے ہنساتے ہنساتے ہنساتے رلا گیا۔ فیملی کے ہاتھوں رگڑا ہنسا ہنسا کر سنایا اور سنا سنا کر ہنسایا مگر ناخن اور کھال کے جدا ہونے پر سالا وہی ذاکر خان بری طرح رلا گیا۔
لب لباب اس خود کلامی کا یہ ہے میرے دوستو۔۔ کہ اس وقت زندگی کا وہ دور گزر رہا ہے کہ جہاں پہلے ذاکر خان رلا کر شو ختم کرتا ہے تو پھر سالے Pinocchio کی کہانی بھی افسردہ کر ڈالتی ہے۔
شاید بات وہی ہے۔۔
"دل تو بچہ ہے جی"