کسی بھی غیر فطری عمل کے systematic نفاذ کے لیے غیر فطری پراسیس تخلیق کرنے پڑتے ہیں۔ انتہائی شاطر اذہان اور انہیں لاگو کرنے کی چاہت موجود ہوں تو کسی خاص طاقت کے بغیر یہ کام کیا جا سکتا ہے۔ ایسے پراسیسز کے نفاذ کے وقت ڈیزائن کے مرحلے میں اگر تیز دماغ موجود نہ ہوں تو پھر طاقت کا سہارا لینا مجبوری بن جایا کرتی ہے۔ بازو کے زور پر آپ کوئی بھی غیر فطری طریقہ کار تھوپ تو سکتے ہیں تاہم اوّل تو فطرت سے مقابلہ بذات خود بہت مشکل اور پچیدہ معاملہ ہوتا ہے دوم ان کو نافذ کرنے کے لیے پراسیس غبی مغز انسانوں کی طرف سے وضع کیے گئے ہوں تو ایسے تمام پراسیس نسبتاً جلد ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔
میں ذاتی طور پر مندرجہ بالا تھیوریٹکل اصول پر یقین رکھتا ہوں۔ اس یقین کے پیچھے میرے پاس اپنی فیلڈ میں موجود علم، مشاہدہ اور تجربہ ہے۔ مثلاً ITIL یا Information Technology Infrastructure Library کے پچھلے دو میجر فریم ورکس کے تحت میں گزشتہ ۸ برس سے IT Service Delivery کافی حد تک کامیابی سے لیڈ کر رہا ہوں۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں، میری ڈومین میں یہ کام آج کل کافی عام ہے۔
اپنے موجودہ پراجیکٹ کا میں اس وقت حصہ بنا جب سب کچھ بکھرا ہوا تھا۔ کوئی چالیس سرورز پر مشتمل آئی ٹی سلوشن ایک سرکاری عرب ادارے کو پانچ سال تک فراہم کرنا تھا۔ ہم اس ماحول میں نئے تھے، اور ایک نئی کمپنی کو کارپوریٹ ماحول میں سب سے بڑا مسئلہ اعتماد اور تعلقات کے عدم کا ہوتا ہے۔ مثلاً سروس میں کوئی خلل پڑا، صارف متاثر ہوا، ہم سے سوال پوچھا گیا، ہم نے جواب دیا، ثبوت مانگے گئے، پھر ثبوت پر کمیٹی بیٹھی اور باقاعدہ عدالتی مقدمے کی طرح ہم جوابدہ ہوتے۔ یہ سلسلہ کوئی تین برس تک چلا۔
اس دوران میرے پیشہ ورانہ فرائض میں سے ایک فریضہ یہ تھا کہ میں مندرجہ بالا انڈسٹری سٹینڈرڈ فریم ورک کے تحت پراسیس بناؤں ان کو عملی جامہ پہناؤں اور وقتا فوقتا ان کی عملیت جاننے کے لیے KPI وضع کروں جن کے تحت ہماری efficiency کو جانچا جا سکے۔ پراسیس کا آخری حصہ continual improvement ہوتا تھا جس کے تحت جانچی گئی KPIs کو بہتر سے بہتر کرنے کے لیے ان سے نتائج اور سبق کشید کر کے اپنے پراسیسز کو تبدیل کرنا ہوا کرتا تھا۔ یہ ایک لگاتار لامتناہی سلسلہ تھا جو کافی عرصے موثر رہا، بلکہ آج بھی اچھا خاصہ مؤثر ہے۔ اور یہ پراسیس نافذ کر کے ہم نے جیتا تمام سٹیک ہولڈرز کا بھروسہ جو الحمد للّٰہ آج بھی قائم ہے۔
کسی بھی پراسیس کے نفاذ سے سو فیصد فائدہ اٹھانے کے لیے خود احتسابی اہم ترین چیز ہوا کرتی ہے۔ مثلاً آپ جب KPIs وضع کر رہے ہوتے ہیں تو آپ کا مقصد اپنی پرفارمنس کو جانچنا اس لیے ہوتا ہے تاکہ آپ اس میں بہتری لا سکیں۔ میرے نزدیک یہی فطری عمل ہوتا ہے کیونکہ اس راستے آپ اپنے ادارے، اپنی سروسز، اپنے افراد کو بطور کلی بہتر سے بہتر بناتے ہیں۔ اور میرا ذاتی خیال ہے کہ کوئی مجبوری نہ ہو تو انسان ہمیشہ بہتری کی جانب بڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پس یہی انسانی وصف اثبات کی طرف سفر کو فطری بناتا ہے۔
اس کے برعکس ایک اور طریقہ کار یہ ہے کہ KPIs ایسی بنائی یا دکھائی جائیں جس سے "سب اچھا ہے" کا تاثر ملے۔ یہ حرکت اسی غیر فطری پراسیس کے نفاذ کا حصہ ہے جس کی بابت پہلے پیرا میں بات ہوئی۔ اس راستے کو اختیار کرتے مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ آپ شروعات میں اپنے نقص چھپانے پر کافی متحرک اور حساس ہوتے ہیں تاہم انہیں چھپاتے چھپاتے آپ جھوٹ کا ایسا پہاڑ کھڑا کر کے خود اس پر کچھ اس طرح چڑھنا شروع کر دیتے ہیں کہ ایک وقت آتا ہے جب آپ کو دور نیچے کھڑے سچ بولتے لوگ یا دکھائی نہیں دیتے یا سنائی نہیں دیتے۔ یوں آپ ناصرف سچائی سے دور ہوتے جاتے ہیں بلکہ جھوٹ کے شدید عادی بھی ہونے لگتے ہیں۔ اور پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ لوگ آپ کی بات پر یقین کر کے جھوٹ کے پہاڑ پر چڑھنے کی بجائے نیچے ہی ڈائنامائٹ لگا کر سچ کی سرنگ بناتے ہوئے آپ کو بائی پاس کرنے لگتے ہیں۔
شاید بات کافی پچیدہ ہوگئی۔ چلیں کوشش کرتے ہیں اسے ماضی قریب سے دستیاب حقائق کے ذریعے پرکھنے کی۔
2013 میں ملک ایک ڈگر پر چل رہا تھا۔ اس وقت پاکستان میں کرپشن بھی تھی، مہنگائی بھی تھی، دنیا بھر کی برائیاں بھی موجود تھیں تاہم ان تمام خرافات کو ایک منظم طریقے سے کچھ اس طرح pitch کیا گیا کہ ان تمام مسائل کا حل ایک اور فقط ایک فرد کو اقتدار کی صورت میں دکھایا جانے لگا جبکہ باقی تمام سیاستدان پر ابلیس کا ٹھپہ لگا دیا گیا۔
آپ بھی جانتے ہیں میں بھی جانتا ہوں بلکہ وہ جو آج ڈوبتی کشتی کے سوار ہیں وہ بھی جانتے ہیں کہ اس پراجیکٹ کے ماسٹر مائینڈ خاکی وردی میں ملبوس ریاست کے طاقت ور ترین حلقے تھے۔ کج ذہنی، خود فریبی اور حقائق سے دوری ان کے دماغوں پر اس حد تک حاوی تھی کہ ایک سنجیدہ اور حساس ترین پراجیکٹ execute کرنے سے پہلے ڈیزائن فیز میں risk analysis کرنا شاید بھول گئے یا کرنا ہی نہ چاہا، حالانکہ میں اس امر کا ذاتی حیثیت میں گواہ ہوں کہ یہی خاکی پوش جب اپنے فوجی حملوں کو ڈیزائن کرتے ہیں تو ملی سیکنڈ لیول تک جا کر risk analysis کا اہتمام کرتے ہیں۔
کسی نے اس وقت کے ریاستی سیاسی انفراسٹرکچر کو تہہ و بالا کرنے سے پہلے اپنے لیے KPIs وضع نہیں کیے۔ کسی نے خود سے یہ سوال نہ پوچھا کہ ہم نے اس سے کیا اہداف حاصل کرنے ہیں جو ریاست کو فائدہ دیں گے۔ کسی نے خود سے یہ سوال نہ پوچھا کہ ہم نے اس نئے پراجیکٹ کے آزمودہ و مؤثر ہونے کو کیسے اور کب کب جانچنا ہے۔ کسی نے اس سوال پر غور نہ کیا کہ وہ کیا حالات و واقعات ہوں گے جن کے سامنے آنے اور برپا ہونے پر ہم پراجیکٹ کو ناکام قرار دینے پر مجبور ہوجائیں گے۔ کسی نے یہ نہ سوچا کہ پراجیکٹ ناکامی کی راہ پر گامزن ہونا شروع ہو یا مطلوبہ نتائج نہ ملیں تو corrective action اور بعد ازاں rollback plan کیا ہوگا۔ کسی نے یہ نہ سوچا کہ پروجیکٹ فیل ہونے لگے تو backup plan یا پلین بی سی ڈی ای وغیرہ کیا ہوں گے۔
چلیے مان لیتے ہیں کہ تب کا سیاسی انفراسٹرکچر گلا سڑا یا خراب تھا لیکن بہرحال کسی نہ کسی شکل میں پرانی، زنگ آلود، آوازیں نکالتی، کم efficiency والی مشین کی مانند چل ضرور رہا تھا۔ آپ نے اوپر دیے گئے تمام سوال خود سے پوچھے بغیر اس چلتی مشین میں یوں ڈنڈا مارا کہ یہ الٹی چلنا شروع ہوگئی۔ 2013 اور 2022 کے حالات میں فرق آپ کے سامنے ہے۔
کیا میں اس نتیجے پر پہنچنے میں حق بجانب نہیں کہ یہ ایک غیر فطری پراسیس کا غبی اور کم عقل انسانوں کی جانب سے طاقت کے زور پر نافذ کردہ ایسا پراجیکٹ تھا جو شدید ترین ناکامی سے دوچار ہوا؟
سو، سب سے بڑی سطح پر آپ یعنی فرینکسٹائن نے پراجیکٹ فرینکسٹائن کے تحت اپنی اولاد یعنی ابن فرینکسٹائن تخلیق کر ڈالی، اور اسے ناصرف کھلی چھوٹ دے ڈالی بلکہ ایک لمبے عرصے اس کی ناجائز خواہشات بھی پوری کرتے رہے۔ لیکن چونکہ کوئی بھی organic پراجیکٹ کبھی کسی غیر فطری پراجیکٹ جتنا مؤثر اور دیرپا نہیں ہو سکتا لہذا فقط تین ہی برس میں آپ کو وہ آلو خود سہنے پڑے جو آپ نے بڑی محنت، محبت، شفقت اور مخالفین کے ساتھ شدید غنڈہ گردی کے ذریعے گرم کیے تھے۔
اس سب کے دوران ابن فرینکسٹائن یعنی عمران نامی عفریت کے کی بورڈ مجاہدین کا بھی ایک کردار ہے۔
یہ مجاہدین مختلف جسامت، آواز، حجم، قد وغیرہ میں دستیاب تھے، tier one سے لے کر tier five تک کی hierarchy کے تحت ٹاپ مینیجمنٹ سے ایک لائن ملتی تھی جس پر پہلی ٹئیر بیان دیتی تھی، دوسری اس کا مینیجمنٹ کے حق میں میڈیا پر تجزیہ کرتی تھی، تیسری سوشل میڈیا پر مضمون لکھتی تھی، چوتھی انہی خطوط پر پوسٹ لکھتی تھی اور پانچویں۔۔ کمنٹس میں نفرت بیچا کرتی تھی۔ ان سب مجاہدین کو بھان متی کے کنبے کی طرح یہاں وہاں سے پکڑ کر بھرتی کیا گیا تھا۔ پہلی ٹئیر کو کروڑوں روپے دے کر تو آخری ٹئیر کو۔۔ "پاپا کی پرنسز اور ماما کے راج دلاروں" کی محبت کا لالچ دے کر، محسوس یا غیر محسوس طریقے سے بھونکنے پر بھرتی کر لیا گیا۔
لیکن صاحب۔۔ سب باتوں کا لب لباب وہی ہے۔۔ کوئی بھی غیر فطری تحریک بھلا کہاں دیرپا طور پر کامیاب رہ سکتی ہے؟
اور وہی ہوا۔۔
فرینکسٹائن اور ابن فرینکسٹائن کے درمیان جیسے جیسے چپقلش سامنے آنے لگی ویسے ویسے اس کا اثر نچلی ٹئیرز پر پہنچنا بھی شروع ہوگیا۔ ٹی وی اینکرز سے لے کر اخباری کالم نگاروں تک اور کالم نگاروں سے لے کر گلگت تا کراچی سوشل میڈیا مجاہدین تک آپس میں بھڑنا شروع ہوگئے۔ ایک دوسرے کو بلاک کر کے گالیاں دے کر، نفرت فروش سیاسی مقلد تقسیم در تقسیم ہوتے زلالت کی ایسی پاتال میں پہنچ گئے جہاں سے آگے روایتی گالیاں اور کوسنے دینے کے سوا ان کے پاس کچھ اور نہیں بچتا، بالکل ویسے ہی جیسے ان کی پہلی ٹئیر کو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے سوا واہ واہ سمیٹنے کا کوئی اور طریقہ اب بچا نہیں۔
اس ناکام پراجیکٹ کے تخلیق کار، اداکار، سہولت کار اور آخرکار سوشل میڈیائی مجاہدین تک۔۔ سبھی زلیل ہوئے ہیں۔ جانا تو سبھی نے ہوتا ہے لیکن کوئی پرویز مشرف بن کر جاتا ہے، کوئی پاشا بن کر جاتا ہے، کوئی باجوہ بن کر جاتا ہے تو کوئی فیض حمید بن کر۔ جانے والے کے لیے تو خیر رقبے اور جزیرے ہی اہمیت رکھتے ہیں تاہم تاریخ میں ان کا تاثر کبھی نہیں مرتا۔
فرینکسٹائن اور ابو فرینکسٹائن تو چلیے منفی ہی سہی، تاریخ میں اپنا نام تو پھر درج کر جائیں گے۔۔ یہ سوشل میڈیائی مجاہدین نہ اب کہیں کے رہے ہیں نہ آئیندہ کہیں کے رہیں گے۔