میں سلمان حیدر کو نہیں جانتا۔ ایک شام سوشل میڈیا پہ کچھ شور و غل برپا دیکھا۔ استفسار پہ معلوم ہوا کہ کوئی سلمان حیدر نامی صاحب غائب ہیں۔ تھوڑا مزید کریدا تو انکشاف ہوا کہ بھینسا نامی کوئی فیس بک پیج بھی مارشل لاء کے زیر اثر آچکا ہے۔ کچھ یاد پڑتا ہے کہ اس پیج کی ایک آدھ پوسٹ نظر کے سامنے سے گزری شاید البتہ دل کو نہ لگی اسی لیے لائک نہیں کیا۔ دو چار دن گزرے۔ ہمیشہ کی طرح دو متشدد طبقوں میں جنگ سی شروع ہو گئی۔ دلائل دونوں جانب سے برابر کے دئے جا رہے ہیں۔ کچھ واقعتاً مدلل حقائق اور کچھ فقط آواز کا چڑھاؤ۔ ٹی وی آن کیے قریب دو ماہ ہونے کو ہیں لہٰزا میڈیا پہ معلوم نہیں کس کے کف چڑھے ہیں کس کے منہ سے جھاگ نکل رہا ہے ہاں البتہ ایک ویڈیو اوریا مقبول کی دیکھی جس میں موصوف کی پرفارمنس دیکھ کے حضرت سے گھن کچھ بڑھ سی گئی۔ حضرت نے ایک صاحب کو فون پہ لیا ہوا تھا جس کے مطابق اس کا اپنا بھائی بھینسا پیج کے ایڈمن کے ساتھ غائب کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی وہ اس اغوا کے حق میں بھی بولے جا رہا رھا تھا اور ساتھ بیٹھے خلیل جبران پہ طنز بھی کئے جا رہا تھا۔ اس بندے کو دیکھ کہ مجھے کچھ عرصے پہلے کا ایک پلانٹڈ مارننگ شو بہت یاد آیا۔
کچھ لوگوں نے ہمیشہ کی طرح اس معاملے پر بھی موقع ملتے ہی ایک دوسرے کو خوب لتاڑا۔ غائب ہونے والوں کی چار اقسام بیان فرماتے ہوے محترم فاروقی صاحب نے تین کو خونریزی کا مرتکب قرار دیا جبکہ چوتھی قسم کے غائب ہونے والوں کا قصور واضح نہیں فرمایا۔ مزید یہ کہ سوشل میڈیا پہ "غلیظ پراپیگنڈا" کرنے والے خرم ذکی مرحوم کے قتل پہ میڈیا نے اس پہ شور کیا۔ اس بات کو فاروقی صاحب نے میڈیا کی منافرت قرار دیا۔ فاروقی صاحب ایک انتہائی محترم شخصیت ہیں لیکن کبھی کبھار ہم ان سے اختلاف کی جرات کر ہی لیتے ہیں۔
خرم ذکی کی زندگی میں مجھے اس کے کئی کاموں سے ہمدردی رہی اور کئی باتوں سے اختلاف۔ خرم ہمیشہ مسنگ پرسنز کے لیے آواز اٹھاتا رہا۔ خرم کی موت کے بعد کالعدم تنظیموں کے خلاف اٹھنے والی آواز گھٹ کے ختم سی ہو گئی۔ مجھے خرم سے اختلاف اس بات پہ رہتا کہ خرم کسی بھی واقعے کے فوراً بعد اس کا الزام سپاہ صحابہ یا اورنگزیب فاروقی پہ ڈال دیتا۔ میں تب بھی یہی کہتا تھا اور آج بھی اسی بات پر قائم ہوں کہ بندے کو ملزم بنانا اور ملزم سے مجرم بنانا ریاست کا کام ہے ناکہ کسی اینکر کا یا مسجد میں بیٹھے کسی مولوی کا۔ ریاستی قوانین کا احترام ہم سب پر لازم ہے بیشک ہمیں اس سے کتنا بھی اختلاف ہو۔
گمشدہ افراد پہ بات کرتے ہوے لبرل اور رائٹ ونگ کا لڑنا بنتا تو نہیں البتہ اس معاملے پہ میں مولانا حضرات سے یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ آپ بیشک لبرلز پہ گولا باری جاری رکھیے لیکن خونریزی پھیلانے والوں کا پراپیگنڈا کرنے والوں سے موازنہ کر کے ان کے اغوا کو Justify کرنا سراسر زیادتی ہے۔ ہم قانون میں موجود نوے دن تک سرکاری مہمان نوازی تک تو بات مان سکتے ہیں لیکن ثبوت سامنے لائے بغیر بھینسے قابو کرنے پہ فخر کرنا یا اغوا شدہ بندوں کا تمسخر اڑانا اتنا ہی قبیح فعل ہے جتنا گوانتانامو بے کے قیدیوں پہ پھبتیاں کسنا۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ جو لوگ اٹھائے گئے ہیں ان کے خلاف پہلے سے کوئی مقدمہ نہیں۔ جو لوگ غائب ہیں ان کے بھینسا، موچی یا کسی اور پیج کا ایڈمن ہونے کا کوئی اعلانیہ ثبوت بھی نہیں۔ بھینسا پیج کی پرانی پوسٹس حذف کی جا چکی ہیں یعنی ثبوت مٹائے جا چکے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ملحدین کے تمام پیجز کا کنٹینٹ ملا کے بھی یہ قضیہ اسلام آباد میں لال مسجد کے احاطے سے داعش کی بیعت کے آگے کچھ نہیں۔ ملا عبد العزیز آج بھی آبپارہ کے ایک سرکاری دفتر کے نزدیک اپنی دہشت گردانہ سوچ کو لاؤڈ سپیکر کے ذریعے پھیلانے میں مصروف ہیں۔ اگر لبرلز نے مولانا حضرات کے غائب ہونے پہ شور نہیں مچایا تو آپ نے داعش کی حمایت کرنے والوں پہ اور اس پہ حکومتی اداروں کی خاموشی پہ قلم کو جنبش کیوں نہ دی؟ عوام کی اکثریت اس ملا لبرل ملاکھڑے سے تنگ آچکی ہے۔ ہمیں تو دو وقت کی روٹی عزت سے کمانے سے غرض ہے صاحب۔ ہمیں تو ملا اور لبرل دونوں ہی ڈس رہے ہیں۔
آخر میں راستی حساس و غیر حساس اداروں سے التماس ہے کہ بھیا نوے دن تک مہمان نوازی کے بعد ایسے افراد پہ باقاعدہ مقدمہ ضرور دائر کیجئے گا۔ بصورت دیگر قانون سے مبرا متوازی عدالت کا قیام تو ملا فضل اللہ بھی لایا تھا اور آپ بھی کچھ ایسا ہی کرتے محسوس ہوتے ہیں۔