شاہ جی میرے بچپن کا جگری ہے۔ جگری بچپن میں بہت ہوتے ہیں۔ کچھ جگری نہیں رہتے۔ کچھ جگری رہتے ہیں مگر رہتے نہیں۔ کچھ نہ جگری رہتے ہیں نہ زندگی رہتے ہیں، بس مر جاتے ہیں۔
شاہ جی میرا وہ جگری ہے جو سکول سے میرے ساتھ ہے۔ کالج اور یونیورسٹی میں ساتھ بیشک نہ تھا مگر اس دوران میں نے بنک مار کر پیسے بچانے ہوتے تو میں شاہ جی کے گھر پہنچ جایا کرتا جہاں آنٹی انکل سبطین عامر سے مجھے گھر کا پیار ملا کرتا۔ شاہ جی کے والد صاحب مرحوم وہ واحد انسان تھے جن پر میرے ابا مرحوم نے زندگی میں پہلی بار بھروسہ کیا کہ وہ ہمیں اپنی گاڑی میں گھر چھوڑ کر آئے۔
سید سیف علی شاہ یعنی ہمارے انکل ہمارے ابا سے پہلے اللہ کو پیارے ہوئے۔ یہ وہ پہلا اور شاید آخری موقع تھا جب میں نے اپنے کسی بھی یار سے گلے لگ کر اس کے نم آلود آنسو اپنے کاندھے پر محسوس کیے۔ اس کے بعد جس دن میرے ابا مرحوم کو خدا نے پاس بلایا اس روز شاہ جی واحد انسان تھے جس کے گلے لگ کر میرے آنسو نکلے وگرنہ ابا کی وفات کے سات آٹھ روز تک میں رونے کے قابل نہیں ہوا تھا۔
اب سے کچھ دیر پہلے شاہ جی کا وائس نوٹ موصول ہوا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ جذبات کا ایک طوفان جو عموما سرد اور منجمد رہتا ہے بس اچانک سے متحرک ہوگیا۔ زندگی کی جو رفتار ہے اس کو مدنظر رکھ کر کبھی شکایت نہ ہوئی کہ کسی کو ہماری یاد کیوں تبھی آتی ہے جب کام پیش آئے۔ ہم یہ شکوہ یوں بھی نہیں کر سکتے کہ ہم خود بھی اکثر من الناس کو تبھی یاد کرتے ہیں جب کوئی کام درپیش آئے۔ سو میرا ماننا ہے کہ غرض بلاشبہ رابطے بحال رکھنے کا ایک بہانہ ہے لہٰذا اسے کبھی بھی رائیگاں جانے نہیں دینا چاہیے۔
شاہ جی مگر وہ پیارا انسان ہے جو ہمیشہ بغیر کسی کام کے یاد کرتا ہے۔ ارشد بھی ایسا ہی خوبصورت انسان ہے۔ اور بھی ایسے جانے کتنے ہی یار ہیں جو بغیر کام کے یاد کر لیا کرتے ہیں۔
شاہ جی نے کہا تجھے مس کرتا ہوں۔ میں تو شاہ جی کو بتانا چاہتا تھا کہ جانی میں مشترکہ جگری وہاں تیرے لیے چھوڑ کر خود یہاں آگیا ہوں جہاں میرا اور تیرا کوئی ایک مشترکہ یار نہیں۔ پھر بھی شاہ جی بس جی رہے ہیں گو دوست ہیں بیگم ہے بچے ہیں مگر جانی۔۔ یار نہیں۔ یار تو بس وہیں امارات اور پاکستان میں تھے جو ہم چھوڑ آئے۔ اس حساب سے تم بہت امیر ہو کہ یار وافر مقدار میں موجود ہیں ہم شدید عسرت کے مارے ہیں کہ شاہ جی، بھٹی صاحب، ارشد سمیت سبھی کو چھوڑ آئے۔
پردیس کے perks خوب ہیں مگر پردیس کبھی شاہ جی جیسا پیدا نہیں پیدا کر سکے گا یہ میں جانتا ہوں، جہاں اچانک پہنچ جاؤ تو آپ کو ایسا لگنے لگتا تھا جیسے گھر سے اٹھ کر گھر پہنچ گئے۔
میں nostalgia میں زندہ ہوں۔ اور مجھے لگتا ہے nostalgia ہی آخر ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کون زندگی سے موت میں قدم رکھتے ہوئے nostalgic نہ ہونا چاہے گا؟
کوئی نہیں۔
شاید۔۔ کوئی نہیں۔