بہت چھوٹے تھے ہم، شاید 91-92 کی بات ہے۔ میں چھ سال کا تھا، مجھ سے چھوٹا بھائی چار سال کا۔ ایک آدھ سال اوپر نیچے ہو سکتا ہے۔ اماں ابا ماہانہ سودا سلف لاتے تو ساتھ کچھ چُٹ پُٹ ٹافیاں چپس وغیرہ بھی لازمی لاتے۔ یہ ٹافیاں ہمیں وقتا فوقتا ملتی رہتیں مگر ایک ایک کر کے۔ کسی ایک وقت ایک سے زیادہ نہیں۔ میرا خیال ہے ہر گھر میں طریقہ کار یہی ہوتا ہے۔ یہ ٹافیاں فریج میں پڑی ہوتی تھیں۔
غالباً دوپہر کا وقت تھا۔ سب اپنے کاموں میں لگے ہوئے تھے۔ اچانک کسی پر انکشاف ہوا کہ سعد (نواب مجھ سے چھوٹا صدیقی) دکھائی نہیں دے رہا۔ یہیں کہیں ہوگا۔ کچھ دیر بعد دوبارہ آواز دی گئی۔ جواب ندارد۔ ارے۔۔ ابھی تو ٹافی وصول کرتے یہیں تھا۔ کہاں چلا گیا خبیث۔ اب ڈھونڈنا شروع کیا۔ گھر کا ایک مین گیٹ تھا بڑا سا لوہے کا جو کار پورچ میں کھلتا تھا۔ وہاں سے گرِل اور پھر ٹی وی لاؤنج۔ مین گیٹ کے بائیں ہاتھ پر بیٹھک کا دروازہ تھا۔ بیٹھک میں صوفے وغیرہ پڑے ہوتے اور بائیں جانب باتھ روم کا دروازہ جو پچھلی طرف سیڑھیوں کے نیچے بنا ہوا تھا۔ بیٹھک سے اندر جاؤ تو وہی ٹی وی لاؤنج جہاں دو کمرے، ان کے درمیان عقبی صحن کا راستہ اور گھر کے بالکل دائیں جانب کچن۔
گھر میں تلاش شروع ہوئی۔ پورا گھر چھان مارا لونڈا غائب۔ اب سب کی سٹی گم۔ سعد گم گیا ہے۔ جانے کتنے ہی خوف جو ایسے حالات میں ذہن کو ستاتے ہیں۔ خدانخواستہ اغواء تو نہیں ہوگیا؟ کہاں ہوگا؟ اسے تو گھر کا پتہ بھی نہیں آتا۔ موبائل فون کا ظہور ہونے میں ابھی ایک ڈیڑھ دہائی باقی ہے۔ پی ٹی سی ایل پورے محلے میں کسی ایک گھر ہوتا تھا۔ مدینہ کالونی پشاور اور پھر اس میں بشیر آباد، پشاور کا مضافاتی علاقہ تھا۔ گھر سے نکلتے ہی کھیت کھلیان دکھائی دیتے تھے۔ اور اس علاقے میں چار سالہ بچہ غائب۔
یا اللہ!
باہر نکلے، محلے میں ڈھونڈتے رہے۔ سعد کا کوئی پتہ نہیں۔ جانے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟ چار سالہ بچہ کتنی ایک رفتار سے اور کتنا چل سکتا ہے۔ حالت بری ہونے لگی۔ محلے میں ڈھونڈتے پھرتے رہے، کامیابی مگر مل کر ہی نہیں دے رہی تھی۔
اسی دوران غالباً اماں نے کسی وجہ سے ریفریجیریٹر کا دروازہ کھولا۔ انکشاف ہوا کہ اندر ٹافیوں کا پیکٹ موجود نہیں۔
ہمممم۔ اوکے۔
چلو ایک بار پھر گھر میں تلاش کرتے ہیں۔ اب کی بار ٹافیوں کے پیکٹ کی گمشدگی کے ساتھ سعد کی گمشدگی کو جوڑ کر گھر کے غیر معروف گوشے مثلاً بیڈ وغیرہ کے نیچے سعد کو تلاش کرنا شروع کیا اور۔۔
الحمد للّٰہ کامیابی ہوئی۔
سعد بیٹھک میں موجود صوفے کے پیچھے سکون سے بیٹھا ٹافیوں کا آدھا پیکٹ ہضم کر چکا تھا، جبکہ باقی کا نصف مسروقہ مال سعد سمیت بازیاب کروا لیا گیا۔
روایتی اور نوے کی دہائی کی parenthood ذہن میں رکھتے ہوئے اصولاً تو اس پر ایک آدھا چنڈ وجنا بنتا تھا مگر اس سارے معاملے کا کلائمیکس کوئی ایسا کیوٹ سا نکلا کہ ہلکی پھلکی ڈانٹ ڈپٹ پر ہی تان ٹوٹی۔
پیارے بھائیوں اور ان سے بڑھ کر پیاری خواتین، عرض ہے کہ مِسنگ پرسنز کا مسئلہ ایک نہایت سنجیدہ و سنگین معاملہ ہے۔ کیلا ریپبلک آف پاکستان ویسے بھی بلوچ بھائیوں پر مہربانیوں میں مشہور ہے جو اس معاملے کو مزید سنجیدہ بنا دیتی ہے۔ ایسے میں بلوچ برادران کو مزید محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ عرض بس اتنی ہے کہ اپنے مقدمے کو desensitize کر کے اپنا مقدمہ کمزور کرنے کا مؤجب نہ بنیے۔
کبھی صوفے کے پیچھے چھپ کر "ٹافیوں" کا پورا پیکٹ کھانے کی اِچّھا ہو بھی تو کم از کم سگے بھائی اور قریبی دوستوں کو تو اعتماد میں لے لیا کریں تاکہ معاملات اصلی مِسنگ پرسنز کے لیے خراب نہ ہوں۔
آگے آپ مرضی کے مالک ہیں۔