من ستر مسلما سترہ اللہ یوم القیمۂ - الحدیث
ہمارے ارد گرد ایسی کئی واقعات سامنے آتے رہتے ہیں جنہیں یاد رکھنا اور ان سے سبق حاصل کرنا معاشرے کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم ایک سیدھے سادھے مسئلے کو گمبھیر صورت دے کر خود کنفیوژن کا شکار ہونے کے ماہر ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ ہمارے مجموعی طور پر کمزور عوامی حافظے کا بھی ہے۔
چند برس پہلے عامر لیاقت حسین کی مزہبی ویڈیوز سامنے آئیں جن میں موصوف صحابہ کرام پر پھبتیاں کستے پائے گئے۔ بعد ازاں روتے دھوتے معافیاں مانگیں اور ڈرائی کلین سے صاف ہو کر پھر میڈیا میں آگئے۔ عوام سب بھول گئی اور نئے سرے سے صاحب کو سراہنا شروع کردیا گیا۔ اس کے بعد جناب کی کچھ اور ویڈیوز سامنے آئیں جن میں "بڑی نازک صورتحال ہے" اور "کیسا دیا؟" جیسے عظیم الشان ڈائیلاگ دیکھنے کو ملے۔ عوام بہت محظوظ ہوئی لیکن چند دن بعد پھر سب بھول گئے۔ بر ازیں جنید جمشید مرحوم کو زندگی میں جہنم کا ٹریلر دکھانے میں عامر بھائی کا بڑا ہاتھ تھا۔ عامر بھائی کا بیان دو ٹوک تھا کہ جنید کی سزا صرف سر تن سے جدا ہی ہے کیونکہ ان کا جرم ناقابل معافی تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اسی جرم کی وہ چند سال پہلی معافی مانگ کر زندگی کی بھیک سے مستفید ہو چکے تھے۔ اس کے بعد جیو نیوز سے لی کر متحدہ تک سے عشق محبت اور پھر جنگ و جدل چلتی رہی اور بالآخر موصوف بول کے پلیٹفارم سے پیمرا و عدلیہ کے ہاتھوں میڈیائی شہادت پا گئے۔ عوام الناس میں سے بعض آج بھی موصوف کو سچا مانتے ہیں یہ بھول کر کہ خبر دینے والے کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
چند ماہ ہوئے کہ سرچ ریسرچ کرنے والے مولانا الیاس گھمن کے کردار کو لے کر سوشل میڈیا پر گھمسان کا رن پڑا۔ ایک سے زیادہ آزاد ذرائع کی جانب سے قبیح ترین الزامات کا ایک پلندہ تھا جسے ایک آدھ ماہ کے اندر اندر موصوف کے مخالف و مقلدین کی جانب سے مکالمات کے بعد بھلا دیا گیا۔
پرسوں اہلحدیث عالم و خطیب مولانا عبدالرؤف یزدانی کا ایک مبینہ کلپ عوام کے سامنے آیا جس میں موصوف ایک نوجوان کے ساتھ بوس و کنار میں محو ہیں۔ اب تک مولانا یا ان کے کسی پرستار کا جواب سامنے نہیں آیا البتہ ویڈیو کافی حد تک واضح ہے۔
الزامات کی نوعیت ایسی ہے کہ اصولاً ایک سنجیدہ انکوائری ہونا لازم تھی لیکن کیا ہے کہ حکومت اس وقت اپنی کرسی سے متعلقہ معاملات میں اس قدر الجھی پڑی ہے کہ اسے کوئی فکر نہیں۔ یعنی زمین پر اللہ کے ان نائبین پہ ایسے الزامات لگائے جارہے ہیں جن کا نتیجہ الحاد میں اضافے کے سوا کچھ نہیں۔ الزامات اگر جھوٹ پر مبنی ہیں تو ایک پراپیگنڈا ہے جسے کامیابی سے پھیلایا جا رہا ہے جبکہ سچ ہونے کے صورت میں متاثرین اور ان کے ہمدردوں کی مولویت سے گھن بڑھتی جا رہی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے کے ہر طبقے کی طرح مولوی صاحبان بھی بہت اہمیت کے حامل ہے۔ ہماری مساجد بھری نہیں تو بالکل خالی بھی نہیں ہوتیں جس کا مطلب یہ ہے کہ آج بھی عوام کی ایک بڑی تعداد مولانا صاحبان کو سنجیدگی سے سنتی ہے۔ پاکستان بننے سے لے کر آج تک کئی اداروں میں احتساب کی بازگشت سنائی دی ماسوائے دینی و دنیاوی جامعات کے اساتذہ کے۔ ہر طبقے ہر ادارے کی طرح دینی مدارس کا لگاتار احتساب یا تو حکومت کی جانب سے نافزالعمل ہو سکتا ہے یا پھرمدرسہ چلانے والے مسلک کی جانب سے۔ فی الوقت دونوں ہی ستو پی کہ ٹن دکھائی دیتے ہیں۔ (یہاں دنیاوی مدارس میں ہونے والے اخلاقی دیوالیہ پن بھی ذہن میں رکھنا چاہئیے گو کہ وہ کم از کم آج کا موضوع سخن نہیں لیکن پھر بھی اعتدال کا تقاضہ ضرور ہے)۔
دونوں طرح کے ذمہ داران کی عدم دلچسپی کے باعث یہ ذمہ داری بھی عوام خاص کر والدین پہ آتی ہے کہ وہ ہر اس معاملے پہ نظر رکھیں جو بادی النظر میں کسی ایسے حادثے کی جانب لے جا سکتا ہے۔ اپنے بچوں کو اچھے برے کی پہچان کے ساتھ ساتھ "مشکوک" کی پہچان کرنا بھی سکھائیے۔
ایک بھائی نے سوشل میڈیا پہ ایک حدیث لکھی کہ جس نے مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالی قیامت کی دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔ مسلمان بھائی کی پردہ پوشی اپنی جگہ لیکن کسی معصوم کو کسی دکھ، درد یا تکلیف سے بچانا بھی بہت ضروری ہے۔
ماضی قریب میں ہمارا ایک مسلمان بھائی گزرا ہے اسم گرامی تھا جن کا جاوید اقبال (مرحوم)۔ حضرت کے پاس گنیس بک آف ورلڈ ریکارڈ کا اندراج ہے کہ موصوف نے سو عدد معصوم بچوں کو نہ صرف لواطت کا نشانہ بنایا بلکہ فارغ ہونے نے بعد ایک ایک کو تیزاب کی نظر بھی کر ڈالا۔
اس بات سے قطع نظر کہ جناب ذہنی مریض تھے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ آیا یہ حدیث مبارکہ مرحوم جاوید اقبال کے عیوب کی پردہ پوشی کے لیے بھی جائز ہوتی یا ایک سو ایکویں و اطفالِ بعدین کی حفاظت و خبرداری کے واسطے اس حدیث سے چشم پوشی کوئی گنجائش نکل سکتی تھی؟
فیصلہ آپ کا۔