1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. پنکچر

پنکچر

"پنکچر" پڑھ کر آپ کو لگا ہوگا کہ میں پھر کسی کے ٹائر کا سوراخ پر کرنے جا رہا ہوں۔ آپ اپنی جگہ ٹھیک ہیں، بد سے بدنام برا لیکن۔۔ یہ واقعتاً حال ہی میں پیش آنے والا ایک واقعہ ہے۔

مورخہ پتہ نہیں کون سی دسمبر 2022 کو جب کرسمس کی چھٹیاں شروع ہوئیں تب سے ہم نے دو تین لانگ ڈرائیوز پر جانا تھا۔ پلین کوئی ایک دو ماہ سے تھا لہذا گڑبڑ کی گنجائش نہیں تھی۔ خیر نکلنے سے پہلے میں نکڑ پر واقع پیٹرول پمپ تک پہنچا کہ پیٹرول بھر لوں، کوئی تین ایک گھنٹے کی ایک طرف ڈرائیو تھی۔ گاڑی سٹارٹ کی تو سینسر شریف نے اعلان کیا ایک ٹائر کی ہوا ایک اعشاریہ آٹھ جبکہ باقی سب کی دو اعشاریہ چار ہے۔ ایسا ہر چند ہفتوں بعد ہو رہا تھا مگر دھیان نہیں گیا۔ خیر، پمپ سے ٹائر کی ہوا سیٹ کی اور پیٹرول کی ٹنکی فل کروا کر نکل گئے ولہالا شریف، دور دراز فطرت سے دو باتیں کرنے۔

وہاں جا کر کھایا پیا موج کی اور پھر واپس نکل پڑے۔ واپسی پر گاڑی پھر سے ٹائر کی چغلیاں کھائے۔ سلمان بھائی کو بتایا کہتے ہیں پنکچر ہے ٹائر۔ عجیب بات یہ ہے کہ سادہ سی بات تھی، میرے مغز میں کیوں نہ آئی؟ خیر۔۔ اگلے دن ہم نے فلپ آئی لینڈ جانا تھا۔ وہ بھی کوئی دو گھنٹے کی مسافت پر۔ پھر سے صبح شام ٹائر میں ہوا برابر کر کے کام چلایا۔

مورخہ 29 دسمبر 2022 کو صبح اٹھ کر رخ کیا قریبی ٹائر شاپ کا۔ اگلے دن بار بی کیو کا پلین تھا سو اصل میں گوشت لینے جانا تھا، سوچا پنکچر لگواتے چلے چلتے ہیں۔ ٹائر شاپ پہنچے، گاڑی پارک کی اور اندر چلے گئے۔ اچھا پہلی بار ٹائر شاپ جانا ہوا تھا سو ایک بار جو "دوکان" کے نام پر ٹائر شاپ کو جو دیکھا تو دو منزلہ عمارت تھی۔ چلو، کوئی نہیں۔ ہم نے تو پنکچر ہی لگوانا ہے کون سا فراری کے رم خریدنے ہیں۔

آفس کے اندر گیا۔ ریسیپشن پر بندے کو کہا جانی پنکچر لگوانا ہے ٹائر میں۔ آگے سے کہتا ہے "پائن اپوائینٹمنٹ ہے؟"

ہیں؟ اپوائینٹمنٹ؟ پنکچر کی؟ سیریسلی؟

بتایا نہیں۔۔ تو آگے سے کہتا ہے ایک منٹ۔ تھوڑی دیر کمپیوٹر پر ہاتھ چلائے اور پوچھنے لگا۔۔

"استاد قریب ترین تاریخ 4 جنوری 2023 کی دستیاب ہے۔ آنا ہے؟"

ابےےےےےے سالےےےےےےے۔۔

ایک پنکچر کے لیے آٹھ دن؟

میں نے بتایا کہ بھائی پنکچر ہے انجن نہیں کھولنا۔۔ کہتا ہے بھیا اس پنکچر ٹائر میں ہو یا۔۔ کہیں اور۔۔ اپوائینٹمنٹ کے بغیر تو پارکنگ بھی نہیں ہوتی زیادہ دیر۔

مرتے کیا نہ کرتے۔۔ کروائی پھر بکنگ 4 جنوری کی، یعنی گزشتہ روز اور گئے پھر صبح سویرے فجر کے وقت ساڑھے دس بجے۔ ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کا وقت دیا کہ جاؤ عیاشی کرو سامنے میکا (مک ڈونالڈز) ہے وہاں چلے جاؤ یا کافی پھوڑنے۔ اور پیسے بھلا کتنے چارج کیے؟

چالیس ڈالر۔۔ ایک پنکچر کے۔۔

اس پوری داستان کو بیان کرنے کے ایک دو مقاصد ہیں۔ پہلا مقصد یہ کہ وہ جو انوکھا لاڈلہ منہ بھر کے پینتیس پنکچر کی کہانی ٹھونک دیتا تھا، وہ یہاں گاڑی میں لگانا بھی اوکھا ہے کجا الیکشن میں لگانا۔

دوسری بات۔۔ ایک نظام ہے جس کے تحت عوام کی جیب سے پیسے نکال کر عوام ہی کو جاتے ہیں۔ پنکچر چالیس ڈالر کا اس لیے کہ ہیومن ریسورس کا سرکاری سطح پر فی گھنٹہ ایک ریٹ متعین ہے۔ اس سے کم جو پیسے دیتا ملا اس پر جرمانہ ہے۔ ٹائر شاپ کا لائیسینس مکمل حفاظتی قوانین اور ٹریننگ کے ثبوت دینے کے بعد ملتا ہے، لہذا حادثات بھی کم ہوتے ہیں۔ میں نے آٹھ دن کا خلیج سننے کے بعد سوچا پنکچر کٹ ہی منگوا لیتا ہوں لیکن پھر سوچا دفع کرو اتنی محنت کون کرے گا۔

کم و بیش ہر جگہ یہی تجربہ ملتا ہے۔ میں نے سائیکل خریدی، اس کی سروس اسی تا ڈیڑھ سو ڈالر اور تین سے چار گھنٹوں میں ہوتی ہے۔ بات وہی۔۔ نظام۔

دولت accumulate نہیں ہوتی یا کم از کم اتنی آسانی سے نہیں ہوتی۔ مڈل کلاس مڈل رہ کر بھی سسکتی نہیں۔ پنکچر والے کی عزت نفس کے ساتھ "اوئے پپو پین چو پنکچر لا دے" کہہ کر نہیں مجروح ہوتی۔ سیفٹی کا نفاذ ہر ممکن طریقے سے کیا جاتا ہے۔

یہ سب ایسٹ میلبرن کی بات ہے۔ ممکن ہے آپ کسی دیسیوں کے علاقے میں چلے جائیں تو وہی حالات مل جائیں لیکن جہاں تک میری معلومات ہے، اکا دکا یکا ہی ملتا ہے ایسا جو نظام کو بائی پاس کر لیتا ہو تاہم عمومی حالات وہی جو بتائے۔

تو بھائیوں۔۔ اور خواتین۔۔ کبھی کبھار سروسز سیکٹر میں خاص کر چھوٹے کاروباروں کی جانب سے مہنگائی ہونا مجموعی طور پر نظام کی بہتری میں جاتا ہے، تاہم نظام بھی پھر فٹ والا ہونا چاہئے۔

وما علینا الا البلاغ