ایک زمانہ تھا میں رشوت لینے دینے کے شدید خلاف ہوا کرتا تھا۔ پھر ایک دن یوں ہوا کہ رینج روڈ رالپنڈی پر رات کے کوئی نو بجے دو ٹھلوں نے بائیک روک کر کاغذات مانگے۔ اس وقت میرے پاس کاغذات گمشدگی کی رپورٹ پڑی تھی۔ اگلوں نے وہ نکالتے ہوئے بٹوے میں کچھ تازہ کرنسی نوٹ دیکھ لیے اور سیدھا سیدھا رشوت مانگ لی۔ اس موقع پر کچھ ٹھلوں نے اکڑ دکھائی کچھ میں نے، قصہ مختصر بائیک کی سپرداری ہوگئی۔
سی ڈی سیونٹی کا دور تھا، ٹیکسیوں میں جانے کی عیاشی ذرا مشکل ہوا کرتی تھی۔ اس کے باوجود ایک الگ ہی فخر تھا کہ بھیا اللہ کا بڑا کرم ہے راشی اور مرتشی دونوں کا حصہ نہ بن کر کلاھما فی النار سے بچت ہوجائے گی۔
کچھ روز میں کچہری پہلی بار پیشی کا اتفاق ہوا۔ پہلی بار کسی وکیل سے براہ راست رابطہ ہوا۔ پہلی بار جج کے سامنے حاضری ہوئی۔ اب یاد نہیں کیسے مگر چار پانچ روز لگ گئے جج کے سامنے پیش ہوتے ہوتے۔ وہ جو عدالت کے اندر کونے میں ایک بھائی مقدمے کی آواز لگانے بیٹھا ہوتا ہے، اس نے دو سو روپے مانگے۔ میں صاف انکاری۔ وہ بھائی بھی کمال تھے۔ میرا نمبر لگنے ہی نہ دیں۔ کچھ دیر تک تو "الراشی والمرتشی کلاھما فی النار" والی حدیث ثابت قدم رکھتی رہی مگر پھر۔۔
خدا کی قسم گرمی بہت شدید تھی۔
میں نے دو سو روپے ہاتھ پر رکھے۔ جج کے سامنے وکیل کے ساتھ پیش ہوا۔ معاملہ رفع دفع کیا۔ خود سمیت اس پورے معاملے میں ملوث ہر خبیث پر لعنت بھیج کر راہ ناپی۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ میرے سامنے جب بھی کوئی بندہ ہنستے ہوئے رشوت دے کر معاملہ ٹھپ کرنے کا کوئی قصہ سنائے گا تو یا تو مجھے اپنا آپ احمق لگے گا جس نے رشوت دینے سے گریز کیا یا پھر میں آئیندہ ہمیشہ رشوت کا راستہ ہی پکڑوں گا۔ کم سے کم بھی میں خود سے سوال ضرور کروں گا کہ اگر مجبوری میں ہی رشوت دینی تھی تو پہلے خوشی خوشی کیوں نہ دے دی فلاں کی طرح؟
ایسے نتائج پر آپ ہنستے مسکراتے پہنچیں یا تلخ تجربات کے ذریعے، رہنا انہوں نے حقیقت ہی ہے۔ نیز کہنے کو آپ امتحان میں نقل کا کوئی دلچسپ اور مضحکہ خیز واقعہ بھی بھرپور مزاحیہ پیرائے ہی میں کیوں نہ سنا دیں، اس پر مجھے بھی ہنسی ہی کیوں نہ آجائے، حقیقت یہی رہے گی کہ آپ نے نقل کرتے ہوئے بہرحال کسی کا حق مارا تھا۔
دوسری جانب مسئلہ یہ بھی ہے کہ دی تو میں نے بھی آخر میں رشوت ہی۔۔ تو پھر غلط تو میں بھی تھا؟ طوعاً او کرہاً۔۔
برادران و خواتین، جہاں معاشرے کی ہر ڈگر ہی بگڑی ہو وہاں رشوت دینے والے سمیت کسی ایک فریق پر موریلٹی لاگو کرنا اپنے آپ میں کافی ساری ابحاث کا متقاضی ہوتا ہے تاہم۔۔ غلط کام رہتا تو غلط ہی ہے۔ کوشش تو یہی ہونی چاہیے کہ اوّل تو اپنے کیے گئے کسی ایسے غلط کام پر فخر نہ کیا جائے جس سے کسی کی حق تلفی ہوئی ہو، دوم اور اہم ترین۔۔ وہی عمل دوبارہ دوہرانے سے کسی طبقے کے exploit ہونے کا اندیشہ غالب ہو۔
شادی پہلی ہو یا دوسری یا تیسری یا بائیسویں۔۔ شادی سے پہلے یا بعد میں دیا جانے والا کسی بھی قسم کا جھوٹ یا دھوکہ۔۔ رہتا بہرحال جھوٹ یا دھوکہ ہی ہے۔ اور اس عمل کو بطور نارم قبول کرنا بھی غلط ہی تصور ہوگا۔
یہ ایسا ہی جیسے ڈرنک اینڈ ڈرائیو کو بطور نارم قبول کر لیا جائے (بائے دا وے جس پر انگریزی سیریز Suit میں کافی دلچسپ طریقے سے روشنی ڈالی گئی ہے)۔۔ یا جیسے رشوت دینے اور لینے کو ٹھیک کہنا ٹھیک سمجھ لیا جائے، پھر وہ بھلے میں نے ہی کیوں نہ دی ہو، اور نہایت ہی "مجبوری" میں کیوں نہ دی ہو۔
فرمایا تھا پہلا وٹا وہ اٹھائے جس نے خود کوئی گناہ نہ کیا ہو۔
ٹھیک یا غلط، ایسا ہونے لگا تو وٹے اٹھانے والا بھی تو کوئی نہ رہے گا۔
وما علینا الا البلاغ