ہم مسلمان اللہ پاک کی کمال مخلوق ہیں۔ یہ ہم پر اللہ رب العزت کا خاص احسان ہے جس پر اس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ امت کا اس پر اجماع ہے۔ ذرا آگے جائیں تو معلوم ہوتا ہے ہم دیسی یعنی برصغیری مسلمان اگلے درجے کی دلچسپ مخلوق ہیں۔ برصغیری مسلمانوں کو چھوڑ کر باقی کی امت کا اس پر بھی اجماع ہے۔ ویسے تو گھسا پٹا لطیفہ ہے مگر وہ عرب جو پاکستانی کو کہتا ہے کہ مسلمان تو ہم بھی ہوئے مگر تم تو پاغل ای ہوگئے ہو، بات وہ ٹھیک ہی ہے۔
رکیے۔۔
ٹھہریے۔۔
اگر آپ کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے تو بلاوجہ اپنے آبگینے مت کھرونچیے۔ بات مذہب کی نہیں، مسلمانوں کی نہیں، خاص برصغیری دیسی مسلمانوں کی چند عاداتِ بد کی ہو رہی ہے۔
آگے چلتے ہیں۔
ہم نے شاہ سے بڑھ کر خود کو شاہ کا وفادار قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مثلاً ختنہ سنت ابراہیمی ہے۔ ہم نے اس سنت کے عدم کو مسلمان ہونے کے رد کا درجہ دے ڈالا۔ اکتفاء مگر یہاں تک بھی نہ ہوا۔ ہم نے آگے بڑھ کر ہر اس چیز کا ختنہ کرکے مسلمان کر ڈالا جس سے ہمیں ہمارے مذہب کے لیے کسی بھی قسم کا خطرہ محسوس ہوا۔ یہ خطرہ "انا نحن نزلنا الذکر وانا له لحافظون" کی موجودگی میں کیونکر پیش آیا، یقینا یہ الگ بحث ہے جس کے حق میں اہل خطر کے پاس توجیہات بھی موجود ہوں گی، تاہم ختنے کرنے کی عادت بہرحال ہم برصغیری خاص کر الباکستانی مسلمان کافی پہلے اپنا چکے ہیں۔
ہم نے سب سے پہلے ریاست کا ختنہ کرکے اسے "اسلامی جمہوریہ پاکستان" بنایا۔ الحمد للہ۔ ثم الحمد للہ۔ ہم نے آئینِ پاکستان کے ختنے فرما کر قراردادِ مقاصد شامل کروائی۔ آمین یا رب العالمین۔ ہم نے افغان جنگ کے ختنے کیے۔ اللہ پاک کا لاکھ لاکھ کرم۔ ہم نے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کے ختنے کیے۔ سبحان تیری قدرت۔ ہم نے تعلیمی نظام کے ختنے کیے۔ الحمد للّٰہ۔ ہم نے فزکس کی کتاب کے ختنے کیے۔ کمال کمال۔ ہم نے احمدیوں کے ہوئے پڑے ختنے ماننے سے انکار کیا۔ بھئی واہ، چس آگئی۔ ہم نے فرد کی آزادی کے ختنے کیے۔ اوئے ہوئے ہوئے ہوئے رابعہ۔
ہم نے مسئلہ کشمییر کے ختنے کیے۔ کیا کہنے۔ ہم نے حلف نامے کے نام پر مختون نکاح نامے کے دوبارہ سے ختنے کیے۔ اعلیٰ بھئی اعلی۔ ہم نے سیاسی اختلافات کے ختنے کیے۔ ارے واہ۔ ہم نے دھرنوں کے ختنے کیے۔ بھئی مزا آگیا۔ ہم نے امریکی دوستی سے دشمنی تک کے ختنے کیا۔ اوہو ہو ہو ہو۔ ہم نے پرانے پاکستان کے بعد ریاست مدینہ کے نام پر نئے پاکستان کے ختنے کیے۔ سبحان اللہ۔ ہم نے صادق و امین کے نام پر سپریم کورٹ سے سیاستدانوں کو کلین چٹ دینے کے ختنے کیے۔ کیا ہی بات ہے۔ ہم نے صحافت کے ختنے کیے۔ الحمد للہ۔
کتنے سارے ختنے کر دیے ہم نے۔۔ الحمد للہ ثم الحمد للہ۔ اللہ پاک قبول فرمائیں۔
لیکن یقین کیجئے ابھی بھی بہت کام باقی ہے۔
فرمایا ایک خاتون نے۔۔
"لوگ جاہل نہیں جزباتی اور اپنے مذہب کے حوالے سے حساس ہیں، جاہل یہ خواتین ہیں جو اس بات کا ادراک رکھتے ہوئے بھی کہ لوگ قرآن کو کیا مقام دیتے ہیں؟ انکے لیے عربی زبان کتنی مقدس ہے اس زبان کے پرینڈڈ کپڑے پہننے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کیا دنیا کے اور ڈیزائن ختم ہوچکے ہیں جو عربی زبان کا پرنٹ ضرور پہننا ہے؟
کم علم لوگ یا عربی زبان جاننے والے لوگ خال خال ہی ہونگے لیکن قرآن ہر مسلمان نے پڑھا ہوا ہوتا یا اسکا رسم الخط دیکھا ہوتا ہے اب وہ یہ دیکھنے کے بعد یہ نہیں کنفرم کریں گے کہ عربی میں کیا لکھا ہوا ہے، کیونکہ دیکھنے میں یہ کسی مسلمان کو بھی اچھا نہیں لگے گا۔
یہ ایک انتہائی نازک معاملہ ہے اسے لوگوں کی جہالت سے زیادہ ان خواتین کی جہالت سے منسلک کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام اور عربی سے ہر مسلمان جو وابستگی رکھتا ہے وہ اکثریت جانتی ہے۔ "
اس پر جرح بھی کیا کرنی کہ ایسے کردار پیدا ہی اس لیے ہوتے ہیں کہ ان کی بھد کے راستے جہالت پر کھل کے چوٹ کی جائے۔ آپ لباس پر لفظ "حلوہ" کی موجودگی کو مذہبی تقاضہ مان کر اسے ناجائز طور پر اگلوں پر تھوپ رہے ہیں۔ آپ مذہب ہی کی ڈومین میں رہ کر اس کے اندر خود ساختہ اضافہ کر رہے ہیں جسے آپ خود حرام قرار دیتے ہیں۔ آپ درج شدہ لفظ کا معنی بھاڑ چولہے میں ڈال کر اس کے رسم الخط کے ساتھ تقدس، حرمت اور تعظیم جوڑ رہے ہیں۔
آپ۔۔ رسم الخط کا ختنہ کر رہے ہیں۔
چک کر رکھیے۔ یقین کیجئے ابھی بہت کام باقی ہے۔