1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. راوی کی روایت

راوی کی روایت

اجرکم الی اللہ۔

اجرکم الی اللہ۔

مومنو۔۔ تمہاری توجہ مطلوب ہے۔۔ غور سے سنو۔

نہایت ہی معزز اور ثقہ راوی سے مروی ہے یہ روایت جو میں اب تمہارے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔۔

زمان تھا سنہ اکیاسی کا، مقام تھا کوئٹہ۔ قصہ ہمارے کوئٹے میں واقع آبائی گھر کا ہے جہاں سے دو گلی چھوڑ کر وقوعۂ اہم کا ذکر ہے۔ 1935 کے زلزلے کے بعد متعارف کردہ احتیاطی جدت میں سے ایک یہاں تعمیر شدہ مخصوص قسم کے گھر تھے جن کی ایک عدد وجہ تسمیہ موجود تھی۔ یہ گھر ان گھروں میں کھڑکی تک کنکریٹ استعمال ہوتا جبکہ اس سے اوپر نالی دار فولادی چادریں استعمال ہوا کرتیں۔ انہی فولادی چادروں پر ڈھلوان زدہ چھتیں مشتمل ہوتی تھیں۔

مومنو۔۔ ہم حق کے بیان میں آگے بڑھ رہے ہیں۔۔ روایت تمہارے ذوق کی نظر۔۔

ان گھروں کی ایک اور مخصوص بات ان میں موجود ایک مخصوص شکل کے روشندان بھی ہوا کرتے تھے۔ چونکہ قصہ ھذا میں کھڑکی و روشندان کا ذکر اہم ہے لہٰذا کوشش کیجئے گا دھیان یہیں رہے۔ مذکورہ بالا گھروں کی نچلی چھت کے برآمدے کے پیچھے کمروں کی گز بھر بلند تر دیوار سے نکلے نصف پنجابی ڈھول کی شکل کے جالی دار فریم واقع ہوا کرتے تھے۔ گلی کے آخر میں دور حاضر کی گلیاتِ کرانچی مارکہ زبردستی کے بیرئیر کی بجائے باقاعدہ دیوار ہوا کرتی لہٰذا اس سے آگے راستہ مسدود رہتا۔ اس گلی میں کل پچاس سے پچپن گھر تھے۔

مومنو۔۔ دھیان یہاں رہے۔۔ اہم موڑ سے گزر رہا ہوں اور میں چاہتا ہوں تمہارا ساتھ میرے ساتھ رہے۔۔

راوی فرماتے ہیں۔۔ اسی گلی میں میرا بچپن کا جگری فرضی نام ہاشم رہا کرتا تھا جس کی وجہ شہرت دھان پان شخصیت کے باوجود طوالت و قطرِ شہباز گل جیسا تضاد ہوا کرتا تھا۔ بھلا دور تھا۔ ہر گھر اپنا گھر ہوا کرتا اور کوئی بھی بچہ کسی کے گھر میں اپنائیت کے احساس کے ساتھ داخل نہ ہونے کی کوئی وجہ نہ ڈھونڈ پاتا۔

مومنو۔۔ توجہ۔۔ توجہ۔۔

راوی سے مزید مروی ہے۔۔ اس روز محلے کے باقی لڑکوں کی طرح میں بھی محلے کی کسی چھت پر گڈی اڑانے یعنی پتنگ بازی کے مشغلے میں مشغول تھا۔ میری ذمہ داری مانجھے کے پنے کو سانبھ کر رکھنا تھا جبکہ ہاشم پتنگ کی کنی ڈالنے میں محو تھا۔ اب یہ دونوں کام انہماک کے متقاضی ہوتے ہیں اور انہماک اس وقت تک ساتھی رہتا ہے جب تک کوئی غیر معمولی منظر یا احساس سے پالا نہ پڑ جائے۔ اس وقت بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ مانجھا سنبھالتے گلی کے پرلے والے گھر کے روشن دان پر نظر پڑی اور کھلے ہوئے روشندان سے ہوتی گھر کے اندر جا پہنچی۔

مومنو۔۔ یہاں سے تمہاری توجہ کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے۔ سنو۔۔ غور سے سنو۔۔

راوی سے مزید مروی ہے کہ روشندان سے گھر کے اندر کچھ بہت ہی نامانوس اور غیر معمولی حرکت نظر آئی جس کو مآخذ سفید رنگت کی کوئی شے تھی۔ میں نے ہاشم کو اس جانب متوجہ کیا۔ ہاشم نے غور کیا مگر منظر نامے کی کسی بھی قسم کی منطقی تفہیم سمجھنے یا سمجھانے سے معذور ہی رہا۔ اب دو عدد لڑکے اور ایک عدد ناقابل سمجھ حرکت، تجسس عین فطری تھا۔ اسی تجسس کے ہاتھوں ہاشم نے پتنگ کی ڈور کا سرا پاس پڑی اینٹ سے لپیٹا اور اسے ہوا میں معلق چھوڑ کر گلی کے آخری کونے سے دوسری جانب کی چھتوں پر پہنچ گئے۔

مومنو۔۔ نازک مرحلہ ہے۔۔ توجہ کا طلب گار ہوں۔۔

ناقابل تفہیم حرکت کا منبع جو گھر تھا یہ فرضی نام ایکسیل والوں سے منسوب تھا۔ ایکسیل والے کوئٹہ کے مقامی لوگ نہ تھے بلکہ سیالکوٹی اصل کے حامل کوئٹہ آن بسا خاندان تھا۔ ایکسل والوں کی پہلے کوئٹہ میں (فرضی نام) اقبال روڈ پر ام الخبائث محلول کی دوکان ہوا کرتی تھی جو ظاہر ہے بوجہ مشہور تھی۔ پھر یوں ہوا کہ بھٹو صاحب آگئے اور وہسکی کے مداح ہوتے ہوئے بھی پاکستان بھر میں شراب پر پابندی لگا گئے۔ ایکسل والے یقینا آج بھی یہ سمجھتے ہوں گے کہ بھٹو صاحب کو ان کی آہ لے ڈوبی۔ خیر۔۔ کاروباری نے چونکہ دھندا چلانا ہوتا ہے لہٰذا ایکسل والوں نے شراب فروشی چھوڑ کر بندوق فروشی سے رشتہ جوڑ لیا۔ معزز ثقہ راوی کے مطابق سفید غیر مرئی حرکت ایکسل والوں کے گھر میں جاری تھی۔

مومنو۔۔ توجہ درکار ہے۔۔ زیادہ وقت نہیں لوں گا۔۔ تم نے مجھے میلبرن سے انچولی بلایا ہے اب برداشت۔۔

ثقہ راوی فرماتے ہیں ایکسل والوں کے ایک سیالکوٹی بال کا (فرضی) نام ظہور تھا۔ ظہور فربہ ساخت سیاہ رنگت کے اس قبیل سے تھا جن کے جسم پر جنوری تا اگلا جنوری ہمیشہ پسینہ اور چپ چپ رہتی ہے۔ تاحیات سزائے پسینہ اور چربی کے باعث اس کے آنکھیں اندر کو دھنسی رہتی تھیں۔ اب راوی کے مطابق میں اور ہاشم نے جب غور سے دیکھا تو اندر ظہور اور اس کے ایک عدد کزن کو موجود پایا۔ اس سے پہلے کہ ظہور کی ہئیت و حالت پر جائیں راوی بتاتے ہیں کہ ظہور کا کزن رانوں کے سنگم میں ہاتھ دبائے اور چھپائے نہایت صبر کے ساتھ اپنی باری کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ دوسری جانب ظہور کی حالت۔۔ لیکن ایک منٹ۔۔ ظہور کی حالت سے پہلے ظہور کے حالات پر ایک بار پھر سرسری نگاہ۔۔ فربہ جسم۔۔ سیاہی مائل رنگت۔۔ آنکھیں اندر دھنسی ہوئیں اور پسینے کی چپ چپ۔۔

مومنوں۔۔ ابھی گریہ مت کرنا۔۔ میں تمہیں گریے کا پورا موقع دوں گا۔۔ خدا کی قسم مصائب ابھی آنے ہیں۔۔ ہم مجلس کے اختتام کی جانب رواں ہیں مومنو۔۔ صاحبِ رائے ہو۔۔ صاحبِ ہائے ہو۔۔ تمہاری رائے اور ہائے دونوں سنیں گے مگر پہلے روایت مکمل ہونے دو۔۔

راوی آگے انکشاف کرتے ہیں کہ میں اور ہاشم دیکھتے ہیں۔۔ کزن سے کچھ ہی فاصلے پر ظہور ایک میز کے پاس کچھ اس انداز میں کھڑا ہے کہ اس کا لباسِ زیریں یعنی کہ شلوار شریف ٹخنوں میں بچھی پڑی ہے مگر تاحال لاتوں سے مفرور نہیں۔ سامنے ڈائیننگ ٹیبل ہے۔ اس ڈائیننگ ٹیبل پر ایک عدد چھوٹا، سفید، روسی کتا بچھا پڑا ہے۔ کتے کی پچھلی دائیں ٹانگ ظہور کے دائیں ہاتھ میں جبکہ پچھلی بائیں ٹانگ ظہور کے بائیں ہاتھ میں ہے۔ کتا اپنی اگلی ٹانگیں میز پر مار کر اس ناہنجار ناگہانی آفت سے خود کو چھڑانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ اس کشمکش میں ظہور کتے کی پچھلی ٹانگوں سے اور کتا اگلی ٹانگوں اور پنجوں سے میز سے نبرد آزما ہے۔ میز پر پنجوں سے نشان پڑ رہے ہیں اور ظہور صاحب کتے کے ساتھ بدفعلی کی بھرپور کوشش میں ہیں۔ ظہور کی کامیابی کی صورت میں کتے کی ناکامی یہ ہے کہ اگلا جارح ہاتھ میں پستول تھامے پہلے ہی منتظر کھڑا ہے۔

آہ۔۔ مومنو رکو۔۔ رکو ابھی بیان ختم نہیں ہوا رکو۔۔

راوی سے مروی ہے کہ مجھے اور ہاشم کو جھانکتا دیکھ کر دو لڑکے اور اپنی چھت چھوڑ کر یہ رنگین فلم براہ راست دیکھنے آن پہنچے۔ مزید جنتا کے اتاولے پن کے باعث ٹین کی چھت پر ایک "ڈزززز" کی بھرپور آواز آئی جس کے نتیجے میں ظہور صاحب اپنا ارتکاز کھو بیٹھے اور اپنے منتظر حبیب سمیت اوپر ہماری جانب پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگے۔ کتے کے لیے انسان کے کتے پن سے بچنے کا سب خداوند باری تعالیٰ نے ایسے ہی کر دیا اور وہ بیچارہ دم دبا کر بھاگ نکلا۔ یہ سب کچھ اچانک ہوا اور کچھ ایسے ہوا کہ راوی کے مطابق ہم بھی وہاں سے بھاگ نکلے۔ ظہور صاحب البتہ ذرا زیادہ سراسیمگی کی حد یوں پار کر گئے کہ پستول (کزن والی نہیں اصلی والی) نکلا کر صحن میں ہوائی فائر کر ڈالے۔

مومنو۔۔ آہ مومنو۔۔ بس تھوڑا اور۔۔ دسمبر کی طویل راتوں میں موبائل پر چمیاں بھی دیتے ہو ناں؟ بس پھر دن میں یہ بھی سن لو۔۔

راوی فرماتے ہیں پرانا دور تھا۔ امن اتنا موجود تھا کہ کوئٹہ میں ہوائی فائر سن کر سارا محلہ اکٹھا ہوگیا۔ ظہور سے پوچھا کیا ہوا جس پر ظہور نے کوئٹہ کی زبان میں تفصیل بیان کرنا شروع کی۔۔ "ولاد لوگ کسی کا شادی پر گیا ہوا تھا۔۔ ہم لوگ گھر پر اکیلا تھا۔۔ چھت پر عجیب سا آواز آیا تو ہم نے بولا کدھری چور۔۔ " اتنے میں ہم حقیقت سے آشکار میں سے کسی ایک مہاپرش نے اسے ٹوکتے ہوئے پوچھا۔۔ تم۔۔ تم اس ٹائم پر کیا کر رہا تھا؟"۔۔ اس پر ظہور دو لمحے سٹپٹایا، گڑبڑایا اور پھر بولا۔۔ "ہم؟ ہم۔۔ ہم وہ۔۔ ہم ٹی وی دیکھ رہا تھا"۔

مومنو۔۔ تیاری پکڑو۔۔ گریہ قریب ہے۔۔

راوی فرماتے ہیں یہ عرصے بعد دورانِ تعلیم یہی قصہ برطانیہ میں موجود بین الاقوامی احباب کے ساتھ شئیر کیا جس پر وہ ہنس ہنس لوٹ پوٹ ہوگئے۔ پھر یہ ہوا کہ میں خود یہ قصہ کہیں بھول بھال گیا۔ کافی عرصے بعد ایک شام اداسی کے عالم میں غمِ حیات و معاملاتِ زندگی کے ہاتھوں کڑھتا ہوا بے دھیانی کے عالم میں ٹی وی آن کیے سگریٹ پر سگریٹ سلگا رہا تھا۔ اسی دوران ترک دوست یعقوب آفندی نے در پر دستک دی۔ آفندی راوی کے بقول اس وقت میرے ستاروں کی گردش کا واقف کار تھا لہٰذا وقتاً فوقتاً میرا جی بہلانے کمرے میں پہنچ جایا کرتا تھا۔ اس روز بھی جب میں دکھی آتمہ بنا ٹی وی آن کیے خلاء میں گھورتے سوٹے مار رہا تھا آفندی کی دستک پر میں نے "پلیز کم ان" کہہ کر اختصار سے کام لیتے اسے اندر بلا لیا۔ آفندی نے رسماً پوچھا "کاردیشم۔۔ وات ور یو دوئینگ؟" میں نے بھی رسما کھوکھلے انداز میں جواب دیا۔۔ "نتھنگ۔۔ جسٹ واچنگ ٹی وی"۔ اس پر آفندی اچانک بہت سنجیدہ ہوگیا اور اسی سنجیدگی کے ساتھ منجھی تلے تلاشی لینے لگا۔ راوی فرماتے ہیں میں نے قدرے تشویش و تفتیشی انداز میں پوچھا۔۔ "وٹ آر یو لوکنگ فار آفندی؟" آفندی نے اسی سنجیدگی سے جواب دیا۔۔ "آئی ایم سرچنگ فار دی رشین ڈوگ"۔

مومنو۔۔ اگر بی بی ہاجرہ خان پانیزئی کی کتاب نہ آتی تو ہمیں کبھی پتا نہ چلتا کہ نیازی صاحب "ٹی وی دیکھنے" کا بھی شوق رکھتے ہیں۔

تم نے گریہ کیا۔۔ مجلس تمام ہوئی۔

اجرکم الی اللہ۔

اجرکم الی اللہ۔