دوست سوال پوچھتے ہیں کیوں اس بری طرح لیتے ہو۔ دیکھیے، یقین کیجئے دل نہیں کرتا مگر لوگوں کے رویے مجبور کر دیا کرتے ہیں کہ ان کی ٹکا کر بجائی جائے۔ میرا مسئلہ لوگ نہیں رویے ہوا کرتے ہیں، پھر چاہے وسیب کے مشہور صحافی کا ہو، طلاق نامے بیچنے والے وکیل کا ہو یا ڈی این اے کے راستے افضل المخلوقات ہونے کے زعم میں کسی سو لفظی کہانی کے مصنف کا ہو۔ مسئلہ رویے ہوتے ہیں ناکہ اشخاص۔
غلطی انسان کا وصف ہے۔ انسان غلطی سے سیکھتا ہے۔ غلطی سے مبرا کوئی نہیں ہوتا۔ غلطی کے بعد نتائج کا سدھار اور آئیندہ کے لیے اس سے حتی الامکان اجتناب بھی ایک قدرتی امر ہے۔ غلطی ہی کی طرح مدد بھی ایک عدد وصف ہے۔ مدد البتہ فقط انسانی وصف نہیں بلکہ یہ خوبی حیوانات میں بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔
گزشتہ شب مجھ سے چھوٹے امریکے والے بھائی نے سب سے چھوٹے پاکستان والے بھائی کو ٹکٹ بک کروانے کے لیے کہا۔ چھوٹے نے ٹکٹ کے لیے پیسے بذریعہ ایزی پیسہ کسی کے اکاؤنٹ میں منتقل کرنے تھے۔ اس عمل کے دوران ایک اور فقط ایک ہندسہ آگے پیچھے ہوا اور نوے ہزار روپے غلط اکاؤنٹ میں پہنچ گئے۔ رات گئے یہ غلطی ہوئی تو بھائی نے اماں کو بتایا۔ ماں۔۔ ماں ہوتی ہے۔ اولاد کا نقصان ہو تو پریشان ہونا فطری ہے۔ ایک اولاد کے ہاتھوں دوسرے کا نقصان ہوجائے تو دوہری پریشانی لاحق ہونا فطری ہوتا ہے۔ یہاں بھی یہیں ہوا۔ اماں نے مجھ سے پوچھا۔
میرے پاس ایزی پیسہ کے بارے میں معلومات کا فقدان تھا کیونکہ یہ سہولت اس دور میں آنا شروع ہوئی جب میں پاکستان سے مستقبل باہر نکل رہا تھا۔ مجھ سے یہی غلطی ابو ظہبی میں ایک بار ہوئی تھی۔ مجھے EmiratesNBD کے Bot کو بس اتنا بتانا پڑا کہ پچھلی ٹرانزیکشن غلطی سے ہوئی ہے، بینک نے ایک منٹ کے اندر ٹرانزیکشن ریورس کر دی۔ آسٹریلیا میں کچھ دوستوں سے سنا تھا کہ ایسا بہت آرام سے ہوجاتا ہے۔ میں نے اس بابت معلومات حاصل کرنے کی غرض سے فیس بک پر پوسٹ لگا دی۔
مدد مانگنا شاید اسی کو کہتے ہیں شاید؟
پوسٹ پر 98 جواب موصول ہوئے۔ تمام دوستوں کا حد سے زیادہ شکریہ جنہوں نے جواب دیا، جو انباکس پہنچ کر متعلقہ معلومات فراہم کرتے رہے، جنہوں نے اپنی جان پہچان کے لوگوں سے رابطہ کروایا۔ آپ سب کا شدید ترین شکریہ۔
ایک بھائی کا کمنٹ البتہ ایسا تھا جسے پڑھ کر دل سے دعا نکلی کہ اللہ پاک جہاں تک ہو سکے کسی سے کسی بھی قسم کی مدد مانگنے کی نوبت نہ لائے۔ اس کمنٹ پر بعد میں آتا ہوں، پہلے سنیے کہ معاملے نے کیا رخ اختیار کیا۔
ہماری دانست میں نوے ہزار ضائع ہوچکے تھے۔ میں اور میرے بارلے بھائی ہم دونوں کی طبیعت ایسی نہیں کہ اتنے نقصان پر ایک ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ دماغ کھپائیں۔ ٹھیک ہے، ہوگیا تو ہوگیا، آگے بڑھو۔ چھوٹے بھائی کو البتہ شدید پشیمانی لاحق ہوگئی۔ جس کزن کی طرف میں رہ رہا ہوں اسے بھی سارا قصہ معلوم تھا۔ یہ قصہ ہونے کے بعد کچھ ہی دیر میں رقم وصول کرنے والے کا قومی شناختی کارڈ، اس کے نام دیگر موبائل فون، اگلے کی فیملی سمیت گھر کا پتہ کزن نے نکال لیا۔ کچھ احباب نے مشورہ دیا کہ فراڈ کی شکایت ڈال دو اگلے کے اکاؤنٹ بلاک ہو جائیں گے۔ دوستوں نے مشورہ دیا تو یقینا کچھ سوچ کر دیا ہوگا تاہم اس پر دل نہیں مان رہا تھا۔ صبح اٹھے تو کزن اگلے کے گھر کا پتہ معلوم کر چکا تھا۔
اتفاق دیکھیے، جس بندے کو غلطی سے رقم پہنچی وہ کراچی ہی کا رہائشی تھا۔
کیسا؟
اگلا اتفاق دیکھیے۔۔ بندے کو گھر ہم سے پانچ منٹ پیدل فاصلے پر واقع تھا۔
میرے ذہن میں ابھی تک بھی یہی تھا کہ پیسے تو ڈوپ چکے ہیں۔ شام تک جب میرے ذہن سے یہ بات بھی نکل چکی تھی، کزن نے ساتھ دو دوست پکڑے اور اگلے کے گھر نکل پڑا۔
اور یہاں آتا ہے تیسرا اتفاق۔
جس بندے کو رقم موصول ہوئی وہ کزن کے ساتھ جانے والے دوستوں کے ساتھ چند برس پہلے تک کرکٹ کھیلتا رہا تھا۔
خیر۔۔ تینوں نے مل کر داستانِ غم سنائی اور درخواست کی کہ پیسے واپس کر دیجیے مہربانی ہوگی۔ اگلے نے پہلے رقم بھیجنے والے یعنی میرے سب سے چھوٹے بھائی کا شناختی کارڈ مانگا، پھر اس سے بذریعہ ویڈیو کال پر بات کرنے کا کہا کہ یقین دہانی ہو سکے پیسے جائز حق دار ہی کو جائیں گے۔ کزن نے وہیں کھڑے کھڑے بھائی کو کال کرکے تسلی کروائی۔
اور بندے نے نوے کے نوے ہزار روپے سکہ رائج الوقت نصف جس کا پینتالیس ہزار روپے بنتا ہے، ہمارے اکاؤنٹس میں واپس بھجوا دیے۔
اب آتے ہیں مرزا صاحب کی جانب۔
مرزا صاحب کا کمنٹ جس وقت پڑھا مجھے شدید غصہ آیا۔ پھر سوچا میں پہلے ہی بدتمیز بدنام ہوں کیا کہوں اب اس بندے کو۔ بھئی آپ سے مدد مانگی گئی تھی۔ اس ضمن میں خاص طور پر یا عمومی پیرائے میں بالعموم اگر مدد کرنے کی حس پر کسی وقت کسی بھی قسم کی نس بندی ہو ہی چکی تھی تو خاموشی بہتر رہتی۔ آپ مدد نہیں کر سکتے نہ کیجئے لیکن غلطی پر اپنے اندر کا چوتیا تو باہر مت لائیے۔
آپ فرماتے ہیں"میرے جیسے بندے کمنٹ لکھ کر دو بار اچھے سے دیکھتے ہیں کہ کچھ غلط نہ ہو"۔ مرزا صاحب، آپ کی عقل کے ساتھ آنکھوں میں بھی ٹچ بٹن لگے ہیں، پینچو دو بار پڑھ کر بھی ٹھیک نہیں لکھ پا رہے اور باتیں کرتے ہیں غلطی کی؟ مطلب جس بندے سے غلطی ہوگئی اب اسے میں کہوں عقل پر ہاتھ مارنا تشدد کے زمرے میں نہیں آتا؟ مطلب یہ غلطی میری اماں سے یا بہن سے یا بھائی سے یا ابا سے ہوئی ہو تو میں الٹا باتیں سناؤں اگلوں کو؟
مکرر عرض ہے، غلطی انسان کا وصف ہے۔ انسان غلطی سے سیکھتا ہے۔ غلطی سے مبرا کوئی نہیں ہوتا۔ غلطی کے بعد نتائج کا سدھار اور آئیندہ کے لیے اس سے حتی الامکان اجتناب بھی ایک قدرتی امر ہے۔ غلطی ہی کی طرح مدد بھی ایک عدد وصف ہے۔ مدد البتہ فقط انسانی وصف نہیں بلکہ یہ خوبی حیوانات میں بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔