27 دسمبر 2020 کی شام ہم پانچوں نے پہلی بار آسٹریلیا میں قدم رکھا۔ یہ قطر ائرویز کی فلائٹ QR-908 تھی جو کراچی سے دوحہ پہنچنے پر قریب آٹھ گھنٹے بعد سڈنی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ سڈنی پہنچنے پر ہمیں 14 روز کے لیے سپردِ قرنطینہ کر دیا گیا۔ یہاں سے فارغ ہوکر ہم نے ائیر بی اینڈ بی کے مختلف اپارٹمینٹ بطور عارضی ٹھکانہ استعمال کیے۔ اسی دوران ایک پرانی گاڑی Volkswagen Passat بھی خریدی اور نیو ساؤتھ ویلز میں لاک ڈاؤن ماند پڑتے ہی ہم نے عادتاً اپنا گھومنا پھرنا شروع کر دیا۔
سڈنی میں گھومتے پھرتے ہم نے ایک بات کا مشاہدہ کیا۔ یہاں (بلکہ میلبرن میں بھی) پاکستان کے برعکس چڑیوں کی جگہ آپ کو کوکاٹو Cockatoo نظر آتے ہیں۔ تاہم شام کے وقت جیسے پاکستان میں پرندوں کی چہل پہل بھری اڑانیں دکھائی دیتی ہیں، سڈنی خاص کر سڈنی ہاربر برج اور اوپرا ہاؤس کے آس پاس یہاں سینکڑوں کی تعداد میں اچھی خاصی تین سے پانچ فٹ تک بڑی چمگادڑیں دیکھنے کو ملا کرتیں۔ تب دیگر ڈھیر ساری حیرتوں کی طرح بس ایک حیرت ہوئی تھی۔ زیادہ سوچنے کا موقع نہیں ملا کیونکہ نئے دیس میں ابھی قدم جمانے تھے۔
ذہن بہت سارے ifs and buts میں لگا ہوا تھا۔ ہم نے میلبرن جانا تھا جو بوجہ وکٹوریا کے بدنام زمانہ تاریخی لاک ڈاؤن کے ہم جانے سے قاصر تھے۔ ائیر بی اینڈ بی مہنگا پڑ رہا تھا۔ ہم سڈنی رہائش پذیر ہونے کے حق میں نہیں تھے لہٰذا یہ فکر بھی تھی کہ جانے کب تک یہاں ایسے ہی رکنا پڑے۔ بچوں کے سکول کا ہرج الگ ہو رہا تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم Home Sweet Home کے قیمتی ترین احساس سے گزشتہ قریب ایک ایک برس سے محروم تھے۔ ایسے میں ہجرت کرکے پردیس میں آنے والا کون، کیوں اور کیسے سوچتا کہ یہاں اتنی ساری چمگادڑیں کر کیا رہی ہیں؟
ابھی نیٹ فلکس پر Our Living Planet ڈاکیومنٹری دیکھ کر فارغ ہوا۔ اس سیریز میں ہمارے سیارے زمین میں موجود جانداروں بشمول چرند، پرند و نباتات کا ایک دوسرے سے تعلق اور اس تعلق کی بنیاد زمین پر زندگی پروان چڑھنے پر بات کی گئی ہے۔ ڈاکیومنٹری میں سڈنی کی انہی چمگادڑوں کے بارے میں بھی بتایا گیا جو ہم نے تین سال قبل سڈنی میں حیرت کے ساتھ دیکھ کر ان دیکھی کر دی تھیں۔
معلوم یہ ہوا کہ یہ Grey-headed Flying Fox کہلاتی ہیں۔ آسٹریلیا کے جنگلات میں سنہ 2020 میں تباہی مچانے والے آگ Bush Fire کے بعد یہ چمگادڑیں نے اپنے مسکن تباہ ہونے کے بعد زندگی بچانے کے لیے شہروں کی جانب ہجرت کر گئیں۔ ویسے سڈنی سمیت آسٹریلیا کے ہر شہر میں جنگلات ہی جنگلات ہیں تاہم شہر ہونے کے باعث یہاں ان چمگادڑوں کو کنکریٹ سے بنی عمارات، بڑے چھوٹے پلوں اور ایک نئے ماحول کا سامنا کرنا پڑا۔ دلچسپ اور مثبت امر بہرحال یہ رہا کہ انہوں نے اس ماحول کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنا شروع کر دیا۔ یہ چمگادڑیں کہیں بھی رہتی ہوں رات ہوتے ہی خوراک کے انتظام میں نکل جاتی ہیں اور صبح واپس اپنے گھروں کو چل پڑتی ہیں جہاں ان کے بچے منتظر رہتے ہیں۔
لیکن ظاہر ہے ایک شہر گھنے جنگل یا rain forest کا سو فیصد متبادل بہرحال نہیں ہو سکتا۔ اب مسئلہ یہ آیا کہ گرمیوں میں ان چمگادڑوں کے کم سن بچے سڈنی کے بڑھتے درجہ حرارت کے باعث dehydration کا شکار ہونے کے خطرے سے دوچار ہونے لگے۔ مادہ چمگادڑوں نے شروع میں کوشش کی کہ پروں کا سایہ دے کر یا پر پھڑپھڑا کر ہوا کے ذریعے بچوں کو گرمی سے بچائیں۔ تاہم یہ طریقہ زیادہ کارگر ثابت نہ ہوا اور جیسے جیسے گرمی بڑھی رہی بچوں کے لیے خطرہ بھی بڑھتا ہی رہا۔
اب۔۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان چمگادڑوں کی عقل کتنی ساری ہو سکتی ہے؟
اس کے باوجود اس محدود عقل کے حامل ممالیے نے اس خطرے سے بچاؤ کا حل بھی نکال لیا۔ مادہ چمگادڑیں قریبی دریا یا پانی کے کسی بھی ذخیرے پر جاتیں اور پانی سے مس ہوکر اپنے جسم کے بال بھگو کر واپس آتیں اور باقی کا دن بچوں کو لپیٹ کر انہیں کامیابی کے ساتھ گرمی سے بچانے میں کامیاب ہونے لگیں۔
گویا ہجرت کرنے والے ایک محدود عقلی ممالیے نے بدلتے حالات کے ساتھ خود کو ڈھال لیا جو دراصل کسی بھی نسل کی بقاء کے لیے بطور adaptation نہایت اہم ہے۔
اپنا گھر بار دیس دوست یار چھوڑ کر نئی جگہ پہنچنے والی ایک چمگادڑ خود کو ماحول کے مطابق ڈھال سکتی ہے۔
اس کی نسبت بنی نوع انسان کی مثال لیجیے۔
15 اپریل بروز پیر، سڈنی بونڈائی جنکشن پر ایک ذہنی مریض کی جانب سے دن دہاڑے ویسٹ فیلڈ مال میں پانچ خواتین اور ایک پاکستانی مرد طالب علم کے قتل کے اڑتالیس گھنٹے کے اندر ایک نوجوان نے سڈنی کے علاقے Wakeley میں لائیو سٹریم پر جاری چرچ سروس میں بشپ مار ماری ایمانوئیل پر پے در پے چاقو سے وار کر دیے۔ حملہ آور کو وہاں موجود لوگوں نے پکڑ لیا جس دوران چند اور لوگ بھی زخمی ہوئے۔ مبینہ طور پر خود حملہ آور کی اپنی ایک انگلی بھی ضائع یا زخمی ہوئی۔ حملہ آور کی عمر 16 برس ہے اور اللہ کے فضل و کرم سے سلامتی کے مذہب یعنی ہمارے اسلام کا پیروکار ہے۔ تعلق لبنان سے بتایا جاتا ہے۔ یاد رہے آسٹریلیا خاص کر سڈنی اور ملیبرن میں مافیا اور گینگ وارز میں ملوث مجاہدین کی اکثریت لبنانی ہے۔
نیو ساؤتھ ویلز پولیس نے ابتدائی تحقیقات کے بعد اعلان کیا کہ یہ دہشت گردی کی کاروائی ہے۔ یاد رہے، یہاں دہشت گردی سے مراد ایسا حملہ یا سازش ہے جس کا محرک نظریاتی (بشمول مذہبی و غیر مذہبی) ہو۔ پولیس سمیت آسٹریلین مین سٹریم میڈیا کی انسانیت یہ ہے کہ اب تک انہوں نے خود کو "دہشت گردی" تک ہی محدود رکھا ہے۔ حملہ آور پولیس کی تحویل میں ہے۔ پولیس کو کچا چٹھہ سب معلوم ہے۔ اگلے ہی روز اسی سلسلے میں ایک اور گرفتاری بھی عمل میں لائی جا چکی ہے لیکن اس سب کے باوجود۔۔ نہ تو ابھی تک حملہ آور کی شناخت ظاہر کی گئی اور نہ اس کا مذہب ظاہر کیا گیا۔
یہ اور بات ہے کہ اس حملے کی فوٹیج یوٹیوب پر دیکھی جا سکتی ہے جس میں حملہ آور کی زبان اور کسی حد تک اس سے ہونے والی فوری گفتگو بھی موجود ہے۔ مین سٹریم میڈیا یا سرکاری طور پر ابھی تک البتہ اس بابت خاموشی ہے۔ لبنانی مسلم سے لے کر احمدی کمیونٹی کی جانب سے کھلے عام اس حملے کی مذمت جاری ہے حالانکہ ابھی تک کھلے الفاظ میں ان پر کسی نے مجرم یا مجرم کے مذہب کا نام بھی نہیں لیا۔ ہاں سوشل میڈیا اور چند پوڈکاسٹس پر البتہ اس بارے میں بات جاری ہے۔
مشرقی وسطیٰ کے مسائل پر یہاں سب سے بڑے مظاہرے مسلمانوں نے کیے جس کی باقاعدہ پولیس کی جانب سے اجازت دی گئی۔ ایسا ایک بار نہیں کئی بار ہوا ہے۔ یہاں کے مستند ترین میڈیا ہاؤس اے بی سی نیوز کی جانب سے پر غزہ کو لے کر روزانہ کی بنیاد پر کھل کر رپورٹنگ کی جاتی ہے۔ اسرائیلی حکام سے دوران انٹرویو سخت سوال میں خود کئی بار سن چکا ہوں۔ اس سب کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ حکومت مسلمانوں کو کمیونٹی کا ایک لازمی حصہ مانتی ہے جس سے انکار ناممکن ہے۔ یعنی آسٹریلینز اپنے ہی ملک میں ہم مسلمانوں سمیت دیگر مائیگرینٹس کو لے کر اپنا پرانا طریقہ کار (ستر کی دہائی تک رہنے والی وائیٹ آسٹریلیا پالیسی) ناصرف بدل چکی ہے بلکہ اسے دل سے تسلیم بھی کر چکی ہے۔
لیکن اس کے باوجود ایک نوجوان اٹھتا ہے اور لائیو سٹریمنگ کے دوران ایک پادری پر حملہ کر دیتا ہے۔
عجیب حیرت کی بات ہے۔۔ ہجرت کرنے والی ایک چمگادڑ تو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق خود کو ڈھال لیتی ہے، لیکن ہجرت کرنے والا انسان ابھی تک اس عقلی استعداد سے محروم ہی ہے۔۔
پھر ہم ایک نخوت کے ساتھ پوچھتے ہیں دنیا اپنے دروازے ہم پر بند کیوں کر رہی ہے؟