1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. تقدیس ہے کیا؟

تقدیس ہے کیا؟

انسان اور کمپیوٹر میں بنیادی فرق یقینا جذبات ہی کا ہے۔ یہ بات ChatGPT کے دور میں سمجھنا کہیں زیادہ آسان ہونا چاہیے لیکن کیا کیجئے کہ ہم انسان ہونے کا بے جا فائدہ اٹھاتے ہوئے جذبات کو منطق اور دلیل پر ضرورت سے زیادہ ہی حاوی کر لیتے ہیں۔ جذبات میرے اور آپ کے الگ ہوتے ہیں۔ بات فقط میرے اور آپ کے جذبات کی ہوتی تو ہم مل بیٹھ کر فیصلہ کر لیتے، مسئلہ یہ ہے کہ 69 لوگوں پر تحقیق کی جائے تو ان کے جذبات بہت الگ الگ ملیں گے۔ ظاہر ہے جذبات کی عکاسی میں بہت سارے دیگر عوامل مثلاً ہماری معاشرتی اقدار ہماری پرورش ہمارا مذہب ہمارا فیملی سسٹم ہمارے اندر انڈیلا گیا یا ہم سے نکالا گیا برداشت کا مادہ وغیرہ سبھی آجاتا ہے۔

کئی دیگر اہم یا غیر اہم objects کی طرح پاکستان کے جھنڈے کا رنگ بھی سبز ہے۔ اب اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ پورے پاکستان ہی کو ہرا رنگ پسند ہوگا۔ بالفرض کوئی مجاہد زبردستی یہ نتیجہ نکال لے تو اسے جذباتیت کہا جائے گا۔ اس کے بعد آپ فرض کر بھی لیں تب بھی اس مفروضے سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ہرا رنگ اب کسی بھی قسم کی تقدیس کا درجہ حاصل کر بیٹھا ہے۔ لیکن ظاہر ہے، جذباتیت چونکہ ہمارے یہاں ضرورت سے کہیں زیادہ سے بھی زیادہ ہے لہٰذا کوئی جوان آپ کو بتا سکتا ہے کہ ہرا رنگ تعظیم و تقدس کا متقاضی ہے۔ ہم ہنستے ہوئے یہ بھی فرض کر لیں تب بھی ہرے رنگ کی تقدیس و تعظیم ہم ہر فرد پر لاگو نہیں کر سکتے۔ آپ چاہیں تو کوشش کر لیجئے، باقیوں کا تو نہیں معلوم میرا جواب البتہ اس پوری پوسٹ کے آخر میں دیا جانے والا مختصر سا جواب ہی رہے گا۔

ویسے تو یہ الگ بحث ہے کہ کیا مقدس ہو سکتا ہے کیا نہیں تاہم کم از کم میرا یا آپ کا لکھا مقدس نہیں ہو سکتا یا ہم کسی سے یہ امید نہیں رکھ سکتے کہ وہ ہمارے یا آپ کے لکھے کو مقدس جانے۔ اسی نکتے کی بنیاد پر میرے اور آپ کے الفاظ ہماری سوچ ہمارے نظریات کا تمسخر ان پر تنقید ان پر طنز ناصرف جائز ہے بلکہ کم از کم اس صورت میں تو مستحب بھی ہے جب ہمارا لکھا جمود کا باعث بننے لگے۔ طنز، مزاح، تنقید یہاں تک کہ تمسخر بھی، یہ سب جمود توڑنے کی وجہ بنتے ہیں۔ اور ملک پاکستان میں جمود کی مختلف واضح مثالوں میں سے ایک شمیم آراء والے جذبات، اور بپا جانی والی تقدیس ہے۔ میں انہیں کیسے دیکھتا ہوں اس کا مختصر جواب ایک بار پھر آخر میں۔

تو پھر تقدیس ہے کیا؟ منطق کے حساب سے تو کوئی چیز مقدس نہیں۔ بدقسمتی ہے کہ منطقی ترین طبقہ بھی چاہتے نہ چاہتے ارادتاً یا غیر ارادتاً نظریات یا افراد سے تقدیس یا سوڈو تقدیس جوڑ ہی دیتا ہے۔ ایک جانب اس کی ایک چھوٹی سی مثال طاہرہ کاظمی ہیں۔ دوسری جانب بڑی سی مثال ہرا رنگ۔ میرے نزدیک یہ سب باتیں ہیں لیکن اس کے باوجود مجھے معاشرتی، مذہبی اور قانونی حدود کا پاس رکھنا چاہیے کیونکہ بہرحال میں ایک معاشرے کا حصہ تو ہوں۔

تو ایسے میں کیا قانون مجھے کسی تھیٹر میں جج کے کپڑے پہن کر مزاحیہ کردار ادا کرنے سے روکتا ہے؟ جی نہیں۔ ایسا ہرگز نہیں۔ کیا مذہب مجھے کسی ڈرامے میں ٹوپی پہنے مجرم مولوی کا کردار ادا کرنے سے روک سکتا ہے؟ جی نہیں۔ ایسا بالکل نہیں۔

کیوں؟ کیونکہ جج کی وضع قطع پر قانون کی اجارہ داری نہیں اور مولوی کے حلیے پر مذہب کی اجارہ داری نہیں۔

تو پھر آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ خوشی یا غم کے اظہار کے طریقے پر کسی معاشرے، کسی قانون، کسی مذہب یا کسی مسلک کی اجارہ داری ہے؟ اور فرض کیا آپ کو ایسا لگتا بھی ہے تو آپ نے کس اصول کے تحت یہ فرض کر لیا کہ آپ کے انڈوں سے زیادہ نازک آپ کے مذہبی جذبات باقی بنی نوع انسان پر حجت بھی ہیں؟