دیکھیے دو باتیں جو اس وقت کرنا ضروری ہیں۔
پہلی بات یہ کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ آپ اپنے آج میں جو کچھ کریں گے وہ کل آپ کے گلے کا ہار یا کرسی کی کیل بن کر واپس سامنے آئے گا۔ مزیدبرآں، جی پی او کے سامنے فوج مخالف نعرے بازی کا جو کام میاں صاحب کے حق میں دوران احتجاج ہوا تھا، اگلا احتجاج اس سے دو انچ آگے بڑھ کر ہونا طے تھا۔
ملک کے مسائل کی جڑ اگر خاکی وردی سے جڑی ہے تو فوج کے خلاف عوامی جذبات میں گزشتہ دو دہائیوں خصوصاً پچھلے دس برس میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ آج اگر کور کمانڈر ہاؤس پر دراندازی ہوئی تو طے شدہ بات یہ ہے کہ کل اگلا احتجاج اس سے انچ ڈیڑھ آگے بڑھ کر ہوگا۔ جو بات طے نہیں وہ یہ کہ اگلا احتجاج کرے گا کون۔ جو پیٹرن چل رہا ہے اس کے مطابق آج خاں صاحب کا برا وقت ہے تو کل پی ڈی ایم کا برا وقت آنے کے امکان کافی حد تک روشن ہیں۔
لہذا۔۔ آرمی ایکٹ یا ملٹری کورٹس، جو بھی گڑھا کھودنا ہے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اس میں آپ کے اپنے گرنے کے امکانات دوسروں کی نسبت زیادہ ہیں۔ ادھر ادھر سے جمع کرکے فوجی شریش کے ذریعے امیدوار جوڑ کر مصنوعی طور پر جو جماعت بنائی گئی، اسے اپنی اصلی شکل میں واپس جاتا دیکھ کر ایک کمینی سی خوشی تو ہوتی ہے مگر یہ خوشی یہیں تک رہنی چاہیے۔ اس سے آگے انصافی کارکنان پر جو ہوگا وہ بہرحال ظلم ہوگا۔ لب لباب۔۔ بیشک خان صاحب کو موقع ملتا تو وہ سیدھا گولی مارنے کو ترجیح دیتے مگر۔۔ آپ خان صاحب نہیں، لہٰذا بندے کے پتر بنیں، یہ ملٹری کورٹس اور آرمی ایکٹ والی یکیاں نہ کریں۔
دوسری بات۔۔ تحریک انصاف کے جو قائدین اٹھائے جا رہے ہیں اس پر انہیں 2018 یاد دلانا تو لازم بنتا ہے مگر ذاتی حیثیت میں مجھے فواد چوہدری کو بھاگتے ہوئے گرتا دیکھنا یا شہباز گل کو ایستھما کی حالت میں دیکھنا بالکل نہیں پسند بیشک پھر وہ ایکٹنگ ہی کیوں نہ ہو۔ مطلب ٹھیک ہے، کمینے لوگ ہیں مگر پولیس کے خوف سے ہی کر رہے ہیں اگر اداکاری کر بھی رہے ہیں تو۔ اس پر ہنسنا مجھے غیر انسانی لگتا ہے اور غیر انسانی سلوک پر ٹھٹھے لگانا کوئی مناسب بات نہیں۔
تیسری بات۔۔ بونس میں، روٹی، کپڑا، مکان یا تعلیم۔۔ اپنی توجہ انہی پر مرکوز رکھیے۔ یہ پاکستان ہے۔ یہاں آپ ابھی اگر جوان یا نوجوان ہیں تو پہلے کسی نہ کسی قابل بن جائیے، اس سے پہلے کسی سیاسی جماعت کے جلسے یا اس کی جانب سے کسی احتجاج میں شریک ہوکر اپنے ابے کا پیسہ اور اماں کی نیند مت حرام کیجیے۔ خان کو آزاد کرتے کرتے آپ خود قید ہوچکے ہیں۔
لہٰذا آئیندہ کوئی خبیث پٹواری یا غیر پٹواری "کارکنان زمان پارک پہنچیں" کی صدا لگائے تو آپ نے بالکل دل پر نہیں رہنا۔ ٹھنڈے ٹھار رہیں، اور اپنی جنگ فیس بک پر جاری رکھیں۔ بلاوجہ کسی کے لیے اپنی زندگی خراب کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آپ میں سے اکثر لوگوں نے نہ جیل دیکھی ہے نہ تھانہ کچہری کلچر۔ بہتر ہے اس چکر میں پڑنے سے گریز کریں۔ ان میں سے کوئی بھی مسیحا نہیں۔ ایویں اپنی زندگی خراب نہ کریں۔
وأخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين