آج زبانوں کا عالمی دن ہے۔ جہاں سے بیٹھ کر میں یہ خرافات لکھ رہا ہوں وہاں اب سے ٹھیک بارہ منٹ بعد یہ دن ختم ہوجائے گا۔ سوچا دن گزرنے سے پہلے پہلے کم از کم اس بابت کچھ لکھ دیا جائے تاکہ سند رہے۔ یاد رہے کہ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے لہٰذا اس پر بات بھی بھرپور سنجیدگی سے ہونی چاہیے۔
زبانوں کے معاملے میں شنید ہے کہ فرانسیسی زبان شائستگی میں اولین درجہ شمار کی جاتی ہے۔ گزشتہ دس برس سے میں فرانسیسی ادارے سے منسلک ہونے کے باوجود کم از کم زبان کی گونج سن کر اس نتیجے پر نہیں پہنچ پایا کہ واقعتا فرانسیسی زبان ہی شائستگی کی دنیا میں عالمگیر حیثیت رکھتی ہے۔ تاہم اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ میرے پاس فرانسیسی زبان کی شائستگی کے حق میں کوئی دلیل نہیں۔ میں فرانسیسی زبان کو دنیا بھر کی اول زبان نہایت سادہ دلیل کی بنیاد پر مانتا ہوں۔ اس دلیل کو دنیا "فرینچ کس" کے نام سے جانتی ہے۔ تلفظ میں کسی قسم کا ابہام نہ چھوڑنے کے لیے انگریزی مساوی French Kiss لکھنا بھی ضروری ہے۔ میرا خیال ہے زبان کے اس درجہ باہمی تعلق کے موجدین سے شائستگی کی توقع نہ کرنا زیادتی ہوگی۔
دروغ گوئی کو میں مناسب عمل نہیں سمجھتا۔ سچی بات یہی ہے کہ زبانوں کی درجہ بندی میں میرے پاس منطق کوئی خاص نہیں۔ یوں سمجھ لیجیے میرے نزدیک یہ کلی طور پر ذاتی پسند ناپسند کا معاملہ ہے۔ جس طرح کچھ لوگوں کو بریانی اور دیگر کو پلاؤ پسند ہوتا ہے، کچھ کو دال تو کچھ کو ساگ، بس ویسے ہی زبان کا معاملہ بھی ہو سکتا ہے۔ مثلاً اس ضمن میں مجھے گائے کی پکی ہوئی زبان سے خاص شغف ہے۔ گائے کی زبان کا وصف یہ ہوتا ہے کہ اس کا ذائقہ کھیری کی طرح نہ تو مکمل چربی جیسا ہوتا ہے اور نہ مکمل گوشت جیسا۔ کھڑے مصالحے میں گائے کی زبان کا پلاؤ بنایا جائے اور بتائے بغیر کسی کو کھلایا جائے تو عین ممکن ہے وہ آپ کا پرستار بن جائے۔ بتا کر کھلایا جائے تو زیادہ امکان (اور ذاتی تجربہ) یہی ہیں کہ اگلا کھائے گا ہی نہیں۔ یہ یاد رہے کہ گائے کی زبان براہ راست نہیں پکانی، پہلے پریشر کوکر میں گلا کر کھال اتارنی ہے پھر ڈیڑھ بائی ڈیڑھ انچ کی بوٹیاں بنا کر پلاؤ میں استعمال کرنی ہیں۔ زبان کا مزا تب ہی ہے۔ ویسے بھی کسی بھی ایسی صورتحال کو پسندیدہ نہیں کہا جا سکتا جس میں آپ گائے کے ساتھ فرینچ کس French kiss کے مرتکب ہو رہے ہوں۔ مجبوری کے عالم میں مجھے ایک آدھ بار دنبے کی زبان کا بار بی کیو بھی کرنا پڑا ہے تاہم مشاہدہ جات، تجربات اور سوچی سمجھی رائے کے بعد میں اسی فیصلے پر پہنچا ہونا کہ فرینچ کے بعد گائے کی زبان ہی بہترین زبان کے ایوارڈ کا حق رکھتی ہے۔
زبان کے عالمی دن کے موقع پر اس بار معلومات میں بھی خوب اضافہ ہوا۔ ویسے تو مجھے اپنے نئے دیس میں تین ہی برس ہوئے تاہم ان تین برس میں تعلیمی نظام سے بوجہ صاحبِ اولاد عدد تین نصف جس کا ڈیڑھ ہوتا ہے، سے خوب واقفیت کا موقع ملا۔ مثلاً میری بیٹی کو گزشتہ دو برس انڈونیشین زبان سکھائی گئی جبکہ بیٹے کو جرمن۔ اب مسئلہ یہ ہوا کہ سوشل میڈیا پر چند معزز احباب کی وساطت سے معلوم ہوا کہ آسٹریلیا میں پنجابی زبان پڑھائی جاتی ہے۔ نسلاً میں چونکہ اردو بولنے والے قبیل سے تعلق رکھتا ہوں لہٰذا اپنے قبیل کے چند حرام المغز متعصب احباب سے واسطہ رہ چکا ہے جو پنجابی زبان کو جرمن کہہ کر پکارتے ہیں۔ آسٹریلیا میں پنجابی زبان کی تعلیم کی خبر سنی تو سب سے پہلے میں نے بیٹے کو پکڑ لیا کہ بیٹا کیا تمہیں واقعی میں جرمن زبان ہی پڑھائی جا رہی ہے؟ جواب اثبات میں آیا تو یقین سے بڑھ کر ایمان لانے واسطے کتاب منگوائی۔ کتاب جرمن زبان ہی میں تھی۔ گویا یہ تو طے ہوا کہ جرمن کے مغالطے میں پنجابی نہیں پڑھائی جا رہی۔ ذرا سی تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ ریاست آسٹریلیا غرب کے چند علاقوں میں جن کی تعداد میرے خیال میں ایک دو سے بڑھ کر نہ ہوگی، اور جہاں پنجابی بولنے والے ذرا زیادہ تعداد میں واقع ہیں، میں پنجابی بطور زبان سال 2022 میں پڑھائے جانے کا اہتمام ہوا۔ خبر میرے لیے نئی تھی تاہم خبر بالکل درست تھی۔ مجھے اعتراض بس یہ تھا کہ احباب "آسٹریلیا میں پنجابی زبان پڑھائی جاتی ہے" کا مطلب یہ نہ پیش کریں کہ تمام آسٹریلیا ہی میں پنجابی زبان پڑھائی جاتی ہے۔ بہرحال یہ غلط تاثر ہے۔ پنجابی زبان مجھے یوں شدید پسند ہے کہ اس میں مجھے یاری دوستی کا میٹھا سا عنصر محسوس ہوتا ہے۔ نیز ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ میں نے آج تک جتنے لوگوں کو گالیاں دیتے سنا، جو شدت پنجابی میں گالیاں دیتے یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں آتی ہے، شاذ ہی کسی اور زبان سے ایسا ممکن ہے۔
زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر میں چند ایسے ناہنجاروں کا ذکر کرنا بھی اہم سمجھوں گا جو زبان کی بنیاد پر انسان کی حقارت یا فضیلت کے قائل ہیں۔ ایسے ایک حضرت کو چند ماہ پہلے پنجابی نہ ہوتے ہوئے بھی پنجاب خنس کی بنیاد پر باچیز بھکر و بنوں برد کر چکا ہے۔ ایسے ہی احباب میں میرے نہایت ہی قریبی رشتہ دار شامل ہیں جن کے خیال سے پشتو بولنا کل ملا کر ٹین کے ڈبے میں پتھر ڈالنے کے بعد اسے ہلانے کی مار ہے۔ بدقسمتی سے جب محبت کا قحط تھا ہم ایسے رشتہ داروں کی طرف بھاگ بھاگ کر کراچی پہنچا کرتے تھے تاہم اس قسم کا تعصب نہ تب سمجھ آتا تھا نہ اب آتا ہے۔ اگرچہ اس بار بھی میں ان رشتہ داروں کے گھر ٹائٹ والا کھانا پھوڑ کر آیا ہوں تاہم کھانے کو چھوڑ کر میں ایسی متعصب سوچ سے برملا بیزاری و برات کا اعلان کرتا ہوں۔ مزیدبرآں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ پشتو شاعری دیگر زبانوں کی نسبت کہیں بڑھ کر جاندار اور زوردار ہے۔
اس کے باوجود زبان کے عالمی روز پر میں اپنے ان پشتون بھائیوں کو ایک لمبا سا شہباز گل ضرور پیش کرنا چاہوں گا جو بچپن سے جوانی تک جب تک ہم پشاور میں رہے ہمیں کمال اور بھرپور حقارت کے ساتھ "پنجابی دال خور" پکارتے آئے۔ مسئلہ نہ پنجابی ہونے کے الزام سے ہے نہ دال خور ہونے کے دشنام سے۔ مسئلہ اگر تھا یا ہے تو اس میں گندھی ہوئی حقارت سے۔ خبرہ داسے دا چہ حقارت نہ منم۔ سمپلی خیجہ زماں پہ دے غنڑ۔ گلابی پشتو پر پیشگی معذرت۔
اکثر من الناس نے زبان کے عالمی دن کو ماں بولی کے دن سے بھی تعبیر کیا ہے۔ یہ حقیقت نہایت دلچسپ ہے۔ ظاہر ہے ماں سے جس قدر پیار ہوتا ہے اس سے متعلقہ اوصاف بشمول زبان سے بھی اسی قدر محبت قائم و دائم رہتی ہے۔ ایک تو ہمارے معاشرے میں عورت کی تعظیم و تکریم کمال ہے جس کی مثالیں اصولی طور پر دنیا کو دینی چاہئے ہیں۔ اس کے بعد خواتین میں بھی خصوصاً ماں اور بہن کی عزت کا مقام و مرتبہ ہی الگ ہے۔ اس بات کا واضح ثبوت یہ حقیقت ہے کہ ہماری کم و پیش تمام تر مقامی زبانوں (بشمول اردو) میں سب سے زیادہ کثرت سے دی جانے والی گالی میں ماں اور بہن کی گالی کا پہلی اور دوسری پوزیشن کے لیے مقابلہ رہتا ہے۔ ایسے میں ماں بولی کا عالمی دن منانا تو بنتا ہے ناں؟
لہٰذا آئیے، آج کے روز مل جل کر ماں بولی/زبانوں کا عالمی دن مناتے ہیں۔
آپ سب کو یہ دن مبارک ہو۔