آو اک بازار سے گڑیا لے آئیں۔۔
گڑیا کا کیا کرو گی؟
گڑیا کے سامنے ہر رت کی میٹھی بات کروں گی۔
اس کی بات سنوں گی۔
اس کی بات سکھی جیسی
اس کی بات پیا جیسی
اس کی بات سمندر سے جڑے پکے عہد جیسی
اس کی بات میں گہرائی
پگلی آنکھ ہی بھر آئی
ہائے انسان کی تنہائی
اب کے گڑیا روئی تو؟
پھر سے جدائی ہوئی تو؟
وقت کے خنجر سے اب کے
فصل کٹائی ہوئی تو؟
گاؤں بدل نہ جاے گا؟
گڑیا تو ہے مال متاع۔۔ یہیں پڑا رہ جاے گا
ہاں سکھی ری! سچ کہتی ہو۔۔
اب کے گڑیا رہنے دو!
اب دل، آنکھیں پیا کو تاکیں۔۔
ہمیں پیا کی دھن میں رہنے دو
پیا کی من بھاون کی رت ہے
یہاں شکر کا ساون رہنے دو۔۔
عروج پہ درپن رہنے دو۔