1. ہوم/
  2. نظم/
  3. صائمہ عروج/
  4. عید سرخ

عید سرخ

سستا خون۔۔ ہےمہنگا پانی
عید کا تحفہ۔۔ سرخ کہانی

آنسو آنسو وطن کی مٹی
بےحس بے دم قصر سلطانی

ہر لمحے کی خوشیاں زنداں
ہر موسم کی رت طوفانی

جب بھی ہم مسکانا چاہیں
کیوں لگتی ہے یہ نادانی؟

چارون جانب مہندی رنگ تھے
پھولوں کی تھی مہک سہانی

اب اشکوں کے تھان کھلے ہیں
سسکی چیخیں خون انسانی

ربا! عید پہ دید یہ کیسی؟
ربا! پوچھ رہی دیوانی۔۔

ربا! دشمن آنکھ دکھاوے۔۔
ربا! بھیج لشکر نورانی۔۔

دل کے ٹکڑے کسے دکھاویں
زخمی نسل کا دکھ انجانی

اہل حکم کے محل نئیں ہلتے
ہمدردی! بس لفظ افسانی

دل قلم کے ہاتھ دیا ہے
نوحہ گر! کر نوحہ خوانی

بو لہب و بو جہل مقابل۔۔
یہود کی مسلم میں فراوانی

حمزہؒ خالدرح علی رض و قاسم رح
فاتح، زنگی، برہان وانی

سبزار، تین سو تیرہ کا لشکر
مقدس ابابیلوں کی سنگ سانی

کہیں سے تلوار داؤد لا دو
کہیں عشق ہو بیعت رضوانی

وہ مینگو باردی کا اسپ لا دو
وہ سارہ کے بچوں سا جزب ایمانی

کہ فرعون شاطر نے منہ کی کھائ
ماں اور بچوں کی ایسی قربانی

یارب! مقصود و مطلوب مومن
کن ف یکون و نصر یزدانی۔۔

جو ہو قرب تیرا تو کیا ہے ازیت؟
مجاہد کو ہے موت لعل یمانی

یہ سرخ عید دشمن کی اک چال ناکام!
بکاؤ نہیں ہے مگر۔۔ مسلمانی۔۔

عروج دشمنوں پر نقارہ یہ بجا دو
یہ فتح مبیں تو ہے میری لوح پیشانی