آنکھیں بھی زلف بھی لب و رخسار مست ہیں
سب ساکنانِ کوچۂ دلدار مست ہیں
گل کیا قفس کے سب در و دیوار مست ہیں
وہ موجِ رنگ ہے کہ گرفتار مست ہیں
سہمے ہوئے ہیں لوگ اندھیروں کے خوف سے
وہ رقصِ چاندنی ہے کہ اشجار مست ہیں
تنہائیوں کے جشن سے صحرا اداس ہے
وحشت سے اپنی کوچہ و بازار مست ہیں
معلوم کر لیا ہے علاج اپنے درد کا
حیرت میں چارہ گر ہیں کہ بیمار مست ہیں
واعظ نے کیا کہا تری رحمت کے باب میں
جب سے سنا ہے سارے گنہگار مست ہیں
دیکھے گا کون ہم سے دریدہ قباؤں کو
اپنی اَنا میں صاحبِ دستار مست ہیں
شاہدؔ یہ دیکھ کر سر مقتل میں آگیا
ڈوبے ہوئے لہو میں، مرے یار مست ہیں