بہ حرف صورتِ انکار توڑ دی میں نے
دلوں کے بیچ کی دیوار توڑ دی میں نے
صدائے نالۂ بے اختیار سے اپنے
ترے سکوت کی رفتار توڑ دی میں نے
اس عاجزی سے کیا اُس نے میرے سَر کا سوال
خود اپنے ہاتھ سے تلوار توڑ دی میں نے
وہ بیخودی میں ترا نام لب پہ آہی گیا
لو یہ قسم بھی مرے یار توڑ دی میں نے
ترے غبار کفِ پَا کی کج کلاہی میں
غررو و نخوتِ دستار توڑ دی میں نے
کچھ اس طرح سے بڑھی لذت خلش دل کی
جگر میں درد کی سُوفار توڑ دی میں نے
مرے جسارت طرز سخن کی داد تو دے
روایت لب و رخسار تور دی میں نے