ہونا اگر یہی ہے تو پھر بے حساب ہو
وہ کون ہے جو میری طرح سے خراب ہو
لازم نہیں کہ اُس کا نشانہ خطا کرے
ممکن نہیں کہ میرا ہدف کامیاب ہو
دستِ ہَوس کو بند قبا کھولنے تو دے
شاید کہ آج پھر کوئی چہرہ گلاب ہو
لگتا ہے مجھ کو تیری محبت بھی اِن دنوں
جیسے کسی غریب کی آنکھوں کا خواب ہو
یہ کیا ہوا کے اپنے مکینوں کو کھا گئی
ان بستیوں پہ جیسے خدا کا عذاب ہو
کس کام کی یہ خوفِ خدا کی حکایتیں
قتل حسینؑ بھی جہاں کارِ ثواب ہو
تو بھی زبانِ میرؔ میں جب گفتگو کرے
شاہد کمال تیری غزل لاجواب ہو