کوزہ درد میں خوشیوں کے سمندر رکھ دے
اپنے ہونٹوں کو مرے زخم کے اوپر رکھ دے
اتنی وحشت ہے کہ سینے میں الجھتا ہے یہ دل
اے شب غم تو مرے سینے پہ، پتھر رکھ دے
سوچتا کیا ہے اسے بھی مرے سینے میں اتار
تجھ سے یہ ہو نہیں سکتا ہے تو خنجر رکھ دے
پھر کوئی مجھ کو مری قید سے آزاد کرے
میرے اندر سے مجھے کھینچ کے باہر رکھ دے
جل رہا ہے جو مرے خانہ جاں کے اندر
اس دئیے کو بھی کوئی طاق ہوا پر رکھ دے
اے صبا دے تو مرے سوختہ جانوں کو خراج
ان کی تربت پہ ہی کچھ برگ گل تر رکھ دے
مردہ احراف بھی کرتے ہیں تکلم شاہد
اپنا کچھ خون جگر لفظ کے اندر رکھ دے