لوٹ کر پھر وہ اسیرانِ قفس بھی آئے
پھول شاخوں پہ چلو اب کے برس بھی آئے
سبز جھیلوں میں اُترنے لگے خوابوں کے پرند
شاخِ مژگاں پہ تری نیند کا رَس بھی آئے
بے صدا دشت میں بیٹھے ہیں کس اُمید پہ لوگ
پھر کسی سمت سے آوازِ جرس بھی آئے
اب وہ پہلا سا کہاں جذبۂ نصرت ہے مگر
ہمرکاب اپنے یہاں تازہ فرس بھی آئے
منتظر کب سے ہے یہ رنگِ تماشائے جہاں
اپنے پیروں میں تو زنجیرِ ہَوس بھی آئے
دیکھنا ہم بھی گِرا کر ہی اُسے دم لیں گے
درمیاں اپنے جو دیوارِ نفس بھی آئے
یارِ خوش طبع مِرے، پھر ترے افسوس سے کیا
خود پہ شاہدؔ کو مری جان ترس بھی آئے