آنکھوں سے بہہ گیا تو نکلنے کی دیر تھی
آنسو جو بن کے خاک بکھرنے کی دیر تھی
کمھلا گئے تھے پھول، خزاوں کا دور تھا
آئی بہار ان کے سنورنے کی دیر تھی
اک چاند آگہی کا مری چھت پہ آ گیا
پھر اس کے بعد رت کے بدلنے کی دیر تھی
منزل کا راستہ بھی نگاہوں میں آ گیا
گر کر مرے رفیق سنبھلنے کی دیر تھی
ماضی کے سب نقوش مجھے یاد آگئے
اک پل تری نگاہ ٹہرنے کی دیر تھی
کارِ جہاں میں دل نہ لگا پھر کبھی مرا
ایفائے عہد ان کے مکرنے کی دیر تھی