1. ہوم/
  2. افسانہ/
  3. شائستہ مفتی/
  4. ایک دن کا مسیحا

ایک دن کا مسیحا

کتنے ہی برس بیت گئے اسے اس جگہ اور ملک کو چھوڑے ہوے۔۔ ابھی کل کی ہی بات لگتی ہے کہ وہ اپنے والد کا ہاتھ پکڑ کر اس مسجد میں آیا کرتا تھا۔۔ ادب سے سر جھکاے ہوے خاموشی سے ایک طرف بیٹھ جاتا تھا۔۔ دل ہی دل میں وہ وقت کا حساب لگانے لگا بتیس سال! ۔۔ دل میں ایک ہوک سی اٹھی۔۔ سب کچھ ہی تو بدل گیا تھا اس عرصے میں، اسے کچھ بھی اپنا نہیں لگ رہا تھا۔۔ ماضی کو تلاش کرتی آنکھیں ایک بار پھر اجنبی چہروں میں الجھ کر رہ گئیں۔۔ کوئی بھی اسے نہیں پہچانتا تھا اس کا دل چاہ رہا تھا کے کوئی اسے زور سے آواز دے کر پکارے۔۔ شایان! شایان! مگر کوئی بھی اسے نہیں جانتا تھا وہ ایک اجنبی کی طرح مانوس در اور دیواروں کو دیکھ رہا تھا۔۔ مسجد کے امام نے پہلی تکبیر بلند آواز میں پڑھی تو تمام نمازیوں نے الله اکبر کہ کر نیت باندھ لی۔

نماز سے فارغ ہو کر وہ مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔۔ اس دنیا سے گزر جانے والوں کو یاد کرکے اسکی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔۔ یہاں اسے دیکھنے والا کوئی نہیں تھا۔۔ اس گمنام لمحے میں وہ اپنے آپ کو انسان ہونے کی اجازت دے سکتا تھا۔۔ ایک کمزور انسان جو رو بھی سکتا تھا اور ٹوٹ بھی سکتا تھا۔۔ ان سالوں میں کتنا بدل گیا ہوں میں۔۔ مجھ میں اب کوئی بھی بات پہلے جیسی نہیں رہی۔۔ میں اب شاید اپنے لئے بھی اجنبی ہوں۔۔ کتنی سختیاں جھیل کر میں نے زندگی میں یہ مقام بنایا ہے۔۔ اس نے اپنی کامیابیوں پر نظر ڈالی تو دھیرے دھیرے دل ہی دل میں مسکرانے لگا، ہاں شاید مسکرانا بھی اب میرا حق بنتا ہے۔

کیوں نہیں آخر کو میں انسان ہوں روتا بھی ہوں تو ہنس بھی پڑتا ہوں، اچانک اسے مسجد کے صحن میں کچھ لوگوں کے تیز تیز بولنے کی آواز آئی۔۔ کچھ لوگ ایک بچے کو بہت زور زور سے ڈانٹ رہے تھے۔۔ اسکی کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر معاملہ کیا ہے؟

کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ خود چل کر دیکھنا چاہیے کہ معاملہ کیا ہے؟

مسجد کے صحن میں کچھ لوگ ایک لڑکے کو بری طرح ڈانٹ رہے تھے۔۔ ہر کوئی اپنی بولی بول رہا تھا، کوئی سسٹم کو الزام دے رہا تھا تو کوئی تربیت کے فقدان کا رونا رو رہا تھا۔۔ اس نے آگے بڑھ کر بات کی نوعیت جاننے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ وہ لڑکا مسجد میں بھیک مانگ رہا تھا۔۔

تو اس بات پر اتنا شور کیوں؟ اس نے توجیہ پیش کی۔۔ "ارے میاں آپ نہیں سمجھتے پوری قوم، بھکاری بنتی جا رہی ہے، کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے"۔

پوری بات سمجھنے کے بعد شایان نے اس لڑکے کا ہاتھ پکڑا اور ایک کونے میں لے گیا۔۔ "کہاں رہتے ہو؟ بھیک کیوں مانگ رہے ہو؟ دیکھنے میں تو ٹھیک ہی لگ رہے ہو۔۔ کسی اچھے گھرانے سے لگتے ہو۔۔ " جواب میں وہ لڑکا خالی خالی نظروں سے دیکھے گیا۔۔ چلو باہر چلتے ہیں۔۔ یہاں بات کرنا کچھ مناسب نہیں لگ رہا۔۔ "

شایان اس لڑکے کا ہاتھ پکڑ کر باہر لے آیا۔۔ مسجد کے ساتھ ہی ایک چائے خانہ تھا، "چائے پیو گے۔۔ " شایان نے لڑکے سے پوچھا، جواب میں لڑکے نے سر جھکا دیا۔۔ نہ جانے کیوں شایان کو یہ لڑکا کچھ مانوس سا لگ رہا تھا۔۔ اس کی آنکھوں میں ابھی امید کے دیئے روشن تھے، جیسے اسے اب بھی الله کی رحمت کا یقین ہو۔۔ اسے امید تھی کے کہیں سے کوئی اس کی داد رسی کو ضرور آئے گا۔۔ شایان نے چائے کے ساتھ بسکٹ بھی منگواے۔ لڑکا شکر گزاری کی نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔۔ چاے پی کر شایان نے اس لڑکے سے کہا "چلو تمھارے گھر چلتے ہیں"۔

لڑکے نے کہا کہ میرا گھر یہاں سے دور ہے۔۔ "رکشا لے لیں؟" شایان نے لڑکے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔ "ٹھیک ہے"، لڑکے نے مبہم سے لہجے میں جواب دیا۔۔ رکشہ روک کر دونوں رکشہ میں بیٹھ گئے، لڑکے نے رکشے والے کو پتا سمجھا دیا، مختلف سڑکوں سے ہوتا ہوا رکشہ ایک کچی آبادی والے علاقے میں داخل ہوا۔۔ ہر طرف غربت اور گندگی کے ڈھیر لگے تھے۔۔ کچی گلیوں سے گزرتے ہوے شایان سوچ رہا تھا کہ اسکا اپنا گھر جو کہ سات سمندر پار ہے شاید کسی جنّت سے کم نہیں۔۔ مگر پھر میں یہاں کیا کر رہا ہوں؟ یہ سوال شایان کو اداس کر گیا۔۔ شاید میرا خمیر اسی مٹی سے ہے چلتے چلتے شایان کے جوتے کیچڑ میں اٹ گئے۔۔ رات کی بارش کے بعد پورا شہر ایک آفت زدہ علاقے کا نقشہ پیش کر رہا تھا۔۔

ایک بوسیدہ سے گھر کے سامنے روک کر لڑکے نے دروازے پر آواز دی۔۔ دروازہ جہاں ہونا چاہیے تھا وہاں ایک ٹاٹ کا پردہ پڑا تھا۔۔ لڑکے کے آواز دینے پر ایک چھوٹا سا بچا باہر سر نکال کر دیکھنے لگا۔۔ "اماں گھر پر ہیں؟"۔۔ "ہاں ہیں۔۔ " بچے نے جواب دیا۔۔ شایان کے ساتھ آنے والے بچے نے اسے اندر جانے کا راستہ دیا۔۔ ٹاٹ کا پردہ اٹھا کر شایان اندر داخل ہوا۔۔ اسے لگا کہ جیسے اک دم ہی غربت اور کسمپرسی کے جن نے اس پر حملہ کرکے اسے دبوچ لیا ہے۔۔ شایان حیرت اور تکلیف کے عالم میں اپنے ارد گرد کے منظر کو ایک ٹک دیکھے گیا اور پھر شرمندہ ہو کر اس نے اپنی نگاہیں جھکا لیں۔۔ جانے کیوں شایان کو لگ رہا تھا کہ اس خاندان کی زبوں حالی میں اسکا بھی ہاتھ ہے۔

سامنے ایک ٹوٹی سی چارپائی پر ایک بوڑھا آدمی مستقل کھانسے جا رہا تھا۔۔ گھر میں موجود ایک واحد کرسی کو بچے نے اسکے سامنے کھسکا کے رکھ دیا۔۔ شایان کرسی پر شرمندہ شرمندہ سا بیٹھ گیا۔۔ بچوں کی ماں اپنے ہاتھ پوچھتے ہے اس کے سامنے آ کر بیٹھ گئی۔۔ شایان نے ماں کی آنکھوں میں دیکھا تو اسے ایک سکوت نظر آیا جیسے ہزاروں طوفانوں سے لڑ کر آئی ہو اور اب کسی طوفان کی کوئی اہمیت ہی نہ رہی ہو۔۔ گھر کے سارے افراد شایان کے آس پاس بیٹھ گئے۔۔ شایان کو لگا کے جیسے وہ ایک مسیحا ہے اور اس کی یک جنبش لب سے اس گھر کے سارے مسائل حل ہونے والے ہوں۔۔

شایان نے گلے کو کھنکھارتے ہوے پوچھا۔۔ "تو اب کیا کرنا ہے؟" اور اگلے ہی لمحے اسے اپنے سوال کی حماقت کا احساس ہوا۔۔ دل ہی دل میں اس نے اپنی جائیداد اور بینک بیلنس کا حساب لگایا تو اسے اندازہ ہوا کہ وہ صرف ایک چھوٹے سے سرمایے سے اس گھر کے تمام مسائل حل کر سکتا ہے۔۔ شایان کی جیب میں اس وقت صرف بیس ہزار روپے تھے۔۔ ماں نے کسی غیر مرئی طاقت کے زیر اثر بولنا شروع کیا، "چھوٹی بچی کو نمونیا ہوگیا ہے، اگر دوا نہ ملی تو وہ بچ نہیں سکے گی۔۔ پچھلے سال سردیوں کے موسم میں میرا بیٹا الله کوپیارا ہوگیا تھا۔۔ دوا جو نہیں ملی تھی۔۔ بڑی بیٹی اپنی پسند کے ایک لڑکے کے ساتھ جانا چاہتی ہے۔۔ میں اسے روکنا بھی نہیں چاہتی مگر اپنی بیٹی کو زندگی کی واحد خوشی دینا چاہتی ہوں، اور وہ یہ ہے کے عزت سے رخصت کر دوں۔۔ "

شایان کی نظر سامنے لیٹے ہوئے بچوں کے باپ پر پڑی۔۔ ماں نے جیسے اسکی آنکھوں کو پڑھ لیا۔۔ "میرا شوہر معذور ہے۔۔ اسکی بیماری پر ہم کچھ بھی خرچ نہیں کر سکتے۔۔ " شایان نے پوچھا کہ۔۔ "اس گھر میں کوئی پڑھا لکھا ہے؟" ماں نے ٹھنڈی سانس لے کر جواب دیا۔۔ "میں سارا دن لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرتی ہوں۔۔ بچا کچا کھانا لاتی ہوں، مشکل سے ہی کھانے کو کچھ ملتا ہے۔۔ تعلیم کا کون سوچ سکتا ہے؟" شایان سوچے جا رہا تھا۔۔ "کیا میں ایک دن میں سب پریشانیاں دور کر سکتا ہوں؟"

کمرے کی کھڑکی سے کسی نے پردے کے پیچھے سے جھانکا۔۔ ایک شہابی رنگ کی نو عمر لڑکی جھلملاتی آنکھوں سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔۔ "یہ آنکھیں؟" شایان کو یوں لگا کہ جیسے ماضی کے ریشمی منظر سے دو جھلملاتی آنکھیں اسے دیکھ کر مسکرا رہی ہوں۔۔ کہیں سے ایک نقرئی ہنسی کی آواز سنائی دی۔۔ یاد کی ساکت جھیل میں ایک کنکرنے لہریے سے بنانے شروع کر دے۔۔ دل میں ایک ہوک سی اٹھی۔۔ " کہاں ہو تم؟" شایان کے آنکھوں کے گوشے بھیگ گئے۔۔

شایان نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور بیس ہزار روپے کی رقم نکال کر ماں کے ہاتھ پر رکھ دی۔۔ ماں نے غیر یقینی انداز سے شایان کی طرف دیکھا۔۔ کچھ توقف کے بعد بولی۔۔ "ہم یہ پیسے لوٹا نہیں سکیں گے۔۔ "، " کوئی بات نہیں"، شایان نے جلدی سے جواب دے کر بات ختم کر دی۔۔

وہ اپنے سامنے بیٹھے ہوے انسانوں کو دیکھ رہا تھا سب کی آنکھیں اس کی طرف یوں دیکھ رہی تھیں جیسے وہ کسی خواب کا حصّہ ہو، ایسے خواب جو ہاتھ لگانے سے ٹوٹ جاتے ہیں۔۔

دیکھنے میں تو سب انسان ہی لگ رہے تھے مگر اپنے انسان ہونے کے معیار سے شاید بلکل ہی ناواقف تھے۔۔ اس بستی میں شاید اور بھی بہت سے ایسے ہی گھر ہوں گے۔۔ ان گھروں کے بھی ایسے ہی مسائل ہوں گے۔۔ کیا وہ سب کے مسائل حل کر سکتا ہے؟ اس نے اپنے آپ سے سوال پوچھا۔۔ اس ک پاس الله کا دیا اتنا ہے کہ اگر وہ صرف اس سب کا آدھا بھی خرچ کرے تو اس کی ضرورت کے لئے بہت باقی رہ جائے گا۔۔ شایان نے سوچا کہ زندگی میں شاید مجھے یہ نیکی کر ہی لینی چاہیے۔۔ اتنا تو حق بنتا ہے اس مٹی کا مجھ پر۔۔

شایان گھر جانے کے لئے ٹاٹ کا پردہ اٹھا کر گلی میں داخل ہوگیا۔۔ جیسے ہی شایان نے گلی میں قدم رکھا تو اپنے آپ کو بیشمار گندے اور غلیظ بچوں میں گھرا پایا۔۔ ہر کوئی اپنی اپنی رام کتھا سنا رہا تھا۔۔ کسی کی ماں آخری سانسیں لے رہی تھی تو کسی کا باپ گمشدہ تھا۔۔ "یا الله یہ میں کہاں آ گیا ہوں؟" وہ حیرت اور دکھ کی ملی جلی کیفیت سے دو چار باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرنے لگا۔۔ پریشانی کے عالم میں کبھی کسی گلی میں جاتا تو کبھی کسی اور گلی میں گھسس جاتا، باہر نکلنے کا راستہ کہیں بھی نہیں مل رہا تھا۔۔ "یا الله یہ میں کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں؟ کچھ دیر پہلے جو مسیحا بننے کے خیالات اس کے ذہن میں موج زن ہو رہے تھے کہیں اڑن چھو ہو چکے تھے۔۔

جیب میں کوئی پیسہ نہ تھا۔۔ ایک لمحے کو اسے لگا کہ وہ بھی ان بچوں کی طرح ایک بھکاری ہے۔۔ جس دولت کے بل بوتے پر وہ ان سب کی مدد کرنے کی سوچ رہا ہے وہ ایک خواب ہے۔۔ شایان گرتے پڑتے سڑک تک پہنچا۔۔ رکشا ابھی تک وہیں کھڑا تھا۔۔ رکشا کو دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی۔۔ رکشہ والا شایان کو دیکھ کر مسکرایا۔۔ "مجھے پتا تھا صاحب کہ آپ واپس ضرور آؤ گے۔۔ یہاں آپ کو اس وقت کوئی سواری نہیں ملے گی۔۔ میں آپ کا ہی انتظار کر رہا تھا"۔ آئیے بیٹھ جایں۔۔

شایان خاموشی سے رکشہ میں بیٹھ گیا۔۔ " کہاں جایں گے؟"۔۔ "جہاں سے آیا تھا۔۔ "شایان نے تھکے تھکے لہجے میں جواب دیا۔۔ " آپ یہاں نئے لگتے ہو؟"۔۔ شایان کو لگا کہ وہ غیر ضروری طور پر زیادہ فری ہو رہا ہے۔۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ گھر تک اسے نہیں لے کر جائے گا۔۔ گھر سے کچھ فاصلے پر ہی اتر جائے گا۔۔ پھر اسے یاد آیا کہ اس کے پاس تو پیسے ہی نہیں ہیں۔۔ خیر دیکھا جائے گا۔۔ دل ہی دل میں اپنے آپ کو تسلی دے کر اس نے آنکھیں موند لیں۔۔ کچھ ہی دیر میں اسے رکشہ والے کی آواز آئی۔۔ "صاحب مسجد تو آ گئی اب کدھر جانا ہے"۔۔

شایان نے اس پاس کے منظر کو دیکھنے کی کوشش کی تو وہ پہچان گیا کہ گھر کے قریب ہی پہنچ گیا ہے۔۔ اس نے رکشہ والے سے کہا۔۔ "دیکھو بھائی تم یہیں رکو میں تمہارا کرایا لے کر آتا ہوں"۔ رکشہ والا نے کہا۔۔ "اگر آپ نہ ائے تو میرا تو نقصان ہو جائے گا۔۔ "، "ارے تمہیں میں ایسا لگتا ہوں؟" شایان نے حیرت سے اس سے پوچھا۔ "نہیں صاحب آپ بلکل بھی ایسے نہیں لگتے۔۔ مگر وہ کیا ہے نہ کہ وقت بڑا خراب چل رہا ہے۔۔ ایک بات بولوں آپ کو، برا نہیں ماننا۔۔ میں بھی بہت مجبور اور پریشان ہوں۔۔ میری بھی کچھ مدد کر دیں"۔ " کیا مطلب؟" شایان نے کچھ نہ سمجھتے ہوے کہا۔۔ "

صاحب گھر میں بیوی امید سے ہے اور ڈاکٹر کا خرچہ اٹھانے کے لئے کچھ نہیں کرایہ کا رکشہ چلاتا ہوں کچھ پیسے مل جایں تو کوئی ٹوٹا پھوٹا رکشہ اپنا کر لوں۔۔ صاحب میری آنے والی نسلیں بھی آپ کو دعایں دے گیں۔۔ "شایان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ رکشہ والے کو کیا جواب دے۔۔ شایان نے اس کو خاموش رہنے کا کہا اور گھر کی سمت چل دیا۔۔ اپنے کمرے میں جا کر اس نے اپنے بیگ میں کیش چیک کیا۔۔ کل ملا کر پانچ ہزار روپے تھے۔۔ وہ پیدل چلتا ہوا رکشہ والے تک پہنچا۔۔ رکشہ والا بہت صبر سے اس کا انتظار کر رہا تھا"۔ مرے پاس بس یہی ہیں۔۔ "اس نے پانچ ہزار روپے اس کو تھماے اور بغیر اس کی آنکھوں میں دیکھے واپس مڑ گیا۔۔

سوچا تھا کہ اتنے سالوں بعد آ رہا ہوں اپنے گلی اور محلے میں کچھ وقت گزاروں گا۔۔ جہاں کی۔۔ گلیوں میں کرکٹ کھیل کر بڑا ہوا۔۔ جہاں کے بزرگوں کی نصیحتوں نے مجھے ایک کامیاب انسان بنایا۔۔ مگر وہ سب کچھ تو اب کہیں بھی نہیں۔۔ اس ماحول کا تو سایہ بھی کہیں نہیں۔۔ "

لگتا ہے کہ شاید میں ابھی سے بہت تھک گیا ہوں۔۔ شایان نے اپنے آپ کو تسلّی دی۔۔ " دنیا میں صرف ایک میں ہی مسیحا تھوڑی ہوں اور بھی لوگ ہیں جو یہ کام کر سکتے ہیں" میں ایک دن کا مسیحا کس کس کو فیض یاب کر سکتا ہوں؟

اگلے دن ہی شایان ٹکٹ کروا کر میں اپنی جنّت میں لوٹ گیا۔۔ مگر آج بھی جب بادل گرج گرج کر برستے ہیں تو شایان کو دو پانی سے بھری کٹورا آنکھیں اور وہ کیچڑ سے بھری گلیاں بہت یاد آتیں ہیں۔۔