اُس کے ہاتھوں کی ہتھیلیاں پسینے سے شرابور ہو رہی تھیں مگر پھر بھی اُس نے تاش کے پتوں کو بہت مضبوطی سے تھامے رکھا ہوا تھا جیسے اُس کی کل کائنات اِن پتوں کی رنگ برنگی ساخت اور تصاویر میں پنہاں ہو۔
حسبِ معمول وہ آفس سے واپسی پر بازار کا چکر لگا رہا تھا، بلا مقصد، خزاں رسیدہ پتے کی طرح اِدھر اُدھر بھٹک رہا تھا، اجنبی چہروں میں اُسے ڈھونڈ رہا تھا: وہ کیسی ہوگی؟ اس شناسائی کو کیا نام دیا جائے؟
اسی بابت کے بے شمار سوالات اُس کے ذہن میں گڈ مڈ ہو رہے تھے۔
ایک دکان سے ایک لڑکی باہر آ رہی تھی۔۔ کیا یہ وہ ہو سکتی ہے؟ اُس نے غور سے اُس کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کی، پہلے تو لڑکی نے دھیان نہیں دیا مگر جب وہ اُسے ایک تواتر سے دیکھے گیا تو اُس نے ایک نگاہِ غلط انداز اُس کی طرف ڈالی اور نفرت سے اپنا منہ پھیر لیا۔
اُف! یہ وہ نہیں ہے۔ وہ فوراً معذرت خواہانہ انداز میں دوسری جانب چل پڑا، ایک لمحہ کو تاش کے پتے اُس کے ہاتھ میں لرز کے رہ گئے، وہ کہاں ہوگی؟
یہ ایک سوال پھر اُس کے دماغ میں کھلبلی مچانے لگا، اُسے بازار میں گھومتے ہوئے ایک گھنٹہ سے زیادہ ہوگیا تھا مگر وہ کہیں نظر نہیں آئی:
کہاں جاؤں، گھر جاکر کیا کروں گا، کوئی بھی تو میرا منتظر نہیں؟
دل میں ایک ہوک اُٹھی۔ سڑک کے کنارے کچرے کا ڈھیر ہوا سے اِدھر اُدھر اُڑنے لگا۔
اماں سے اُس کا تعلق دھوپ چھاؤں جیسا تھا اور وہ بھی گزر چکی تھیں، بہن بھائی اپنی اپنی زندگیوں میں خوش تھے اور وہ جسے وہ بڑے ارمانوں سے بیاہ کر لایا تھا، اُس کے معیار پر پوری نہیں اُتری، نہیں شاید وہ اُس کے معیار پر پورا نہیں اُترا، دل کی ساکت جھیل میں ایک کنکر چپ چاپ گرا اور لہرئیے سے بننے لگے۔ اُس نے تاش کے پتوں پر اپنی گرفت سخت کر دی۔
بازار کے ساتھ ہی ایک سرائے خانہ تھا جس کا مالک اُس کا یار تھا اور جانے کب سے اُس کا منتظر تھا مگر وہ کہیں مل ہی نہیں رہی تھی، لگتا تھا پورے شہر نے پاکبازی کی چادر اُوڑھ لی ہے، وہ ملے گی، ضرور ملے گی، تاش کے پتوں نے گواہی دی۔
اچانک ہی بس اسٹاپ کے نکڑ پر وہ اُسے نظر آگئی، ہاں یہی ہے وہ ا پنے نپے تلے قدم اٹھاتا ہوا اُس کے پاس پہنچا، جانے اُس کی آنکھوں میں کیا تھا، وہ اُسے دیکھتے ہی پہچان گئی:
پورے سو روپے لوں گی۔ اُس نے چھوٹتے ہی کہا۔
سوروپے! یہ تو بہت زیادہ ہیں مگر وہ پھر بھی راضی ہوگیا، مزید ڈھونڈنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
چلو۔ لڑکی نے بڑی بے باکی سے کہا۔ کہاں چلنا ہے؟
وہ اُسے لے کر سرائے خانہ کی طرف چل پڑا، سرائے کا مالک دروازے پر ہی مل گیا، معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ اُس نے ایک کمرے کی چابی اُسے پکڑا دی۔ ایک لمحہ کو اُس نے سوچا کہ اُس کا نام تو پوچھ لے مگر اُس نے فوراً اپنا ارادہ ترک کر دیا۔
کیا فرق پڑتا ہے، نام میں کیا رکھا ہے۔ کمرے میں آ کر لڑکی نے بڑی بے باکی سے برقعہ اُتار کر کھونٹی پر ٹانگ دیا، بیڈ پر بیٹھ کر اُس کی حرکات وسکنات کا بغور جائزہ لینے لگی۔
کمرے میں آ کر اُس نے کنڈی چڑھائی اور بیڈ کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا، وہ حیرت سے اُس کا منہ دیکھنے لگی، اُس کی حیرت کو نظر انداز کرکے وہ اُس کے سراپے کو تکے گیا۔ ادھیڑ عمر کی فربہ مائل سراپا لیے شاید کسی زمانے میں خوبصورت رہی ہوگی، بہت دیر تک وہ اُسے اپنی گرسنہ نگاہوں سے گھائل کرتا رہا پھر اپنی مٹھی کھول کر تاش کے پتے نکالے اور میز پر پھیلا دئیے:
سولیٹیئر (solitaire)"
کھیلنا آتا ہے آپ کو؟" "جی! " لڑکی کی آنکھیں حیرت سے یوں پھیل گئی جیسے کسی عجوبہء روزگار جانور کو دیکھا ہو۔
مطلب کیا ہے تمہارا؟"
پھر اچانک کچھ سوچ کر وہ بجلی کی سرعت سے اُٹھی اور سو روپے نکال کر اُس کے منہ پر مار دئیے۔
پکڑ اپنے سو روپے، ہمارا دھندے کا وقت خراب کیا تم نے! اور پاؤں پٹختی ہوئی کمرے سے نکل گئی اُس کے جانے کے بعد وہ کافی دیر تک ہلتے ہوئے کواڑ کو دیکھتا رہا۔
میز پر پڑے تاش کے پتے اُس کا منہ چڑاتے رہے۔ دھیرے سے کھڑے ہو کر اُس نے تاش کے پتے سمیٹے اور پھر اپنی تلاش پر نکل گیا، شاید اس باروہ اُسے مل جائے۔۔