وہ ایک زخم ہی تو تھا جو جانے انجانے میں کھیل کود کے دوران بچپن میں کبھی لگ گیا تھا، گھٹنے کے پاس لمبوترا سا، سارا گھٹنا خون سے بھر گیا تھا۔
سات بہن بھائیوں میں اُس کا نمبر تیسرا تھا، عجیب ہی شخصیت تھی اُس کی، سہما سہما سا، ڈرا ڈرا سا، سارے بہن بھائیوں میں جیسے گم سا ہوگیا تھا گویا کہ کسی کو نظر ہی نہیں آتا تھا، اماں نے کبھی اُس کی طرف پیار سے نہ دیکھا تھا، دیکھتی بھی کیسے سات بچوں کے پیٹ کے دوزخ بھرنا کوئی آسان کام نہیں تھا، ہر لمحہ ماں کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتی تھی۔
اُس دن جو اُسے چوٹ لگی تو ماں نے شاید پہلی بار اُس کی طرف غور سے دیکھا اور بہتے ہوئے خون کو دیکھ کر تو جیسے بدحواس ہی ہوگئی، فوراً لال دوائی لینے دوڑی، چوٹ کو پہلے صاف پانی سے دھویا پھر بہت پیار سے دوائی لگا کر زخم پر پھیرنے لگی، اُس نے حیران ہو کر ماں کے لمس کو محسوس کیا، یوں لگا جیسے تپتی دھوپ میں کوئی سایہ دار شجر مل گیا ہو، ماں کی قربت نے جیسے اُس پر ایک نشہ سا طاری کر دیا ہو:
ہائے ماں! وہ زور سے چلایا اور ماں نے بے ساختہ اُسے اپنے سینے سے لگا لیا۔
وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، ماں نے پیار سے سر پر ہاتھ پھیرا اور پچکارتے ہوئے بولی:
سب ٹھیک ہو جائے گا میرے بچے۔ ماں کے منہ سے ہار سنگھار کے پھول ایسے الفاظ جھڑنے لگے اور وہ ایک دم مسکرانے لگا۔ ماں کی قربت جیسے تپتے صحرا میں بہار آگئی ہو، زخم سے خون رس رس کر روئی میں جذب ہو رہا تھا اور پھر کچھ ہی دیر میں خون بہنا رک گیا، ماں نے مرہم پٹی کرکے اُس کو گود میں لے کر بستر پر لٹا دیا اور دھیرے دھیرے تھپکنے لگی، اُس نے مسکرا کر آنکھیں بند کر لیں اور میٹھی میٹھی نیند میں کھو گیا، سر شام سوکر پوری رات سویا رہا، صبح صادق آنکھ کھلی تو دیکھا ماں فجر پڑھ رہی تھی، ایک دم اُسے اپنی چوٹ یاد آ گئی، گھٹنے میں ہلکا ہلکا درد ہو رہا تھا مگر زخم سے خون بالکل بند ہو چکا تھا۔
اُس نے ماں کے چہرے کو غور سے دیکھا، ماں شاید اُسے پھر سے بھول چکی تھی، اُس کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوگئی کہ ماں مجھ سے نہیں میرے زخم سے پیار کرتی ہے۔ ایک عجیب سی لا تعلقی رہتی تھی ماں کے چہرے پر، اُسے ایک دم اپنے زخم پر غصہ آنے لگا، اتنی جلدی خون کیسے رک گیا؟ اُس نے پٹی ہٹائی اور زخم کو ناخن سے کریدنے لگا، کچا زخم تھا، تھوڑی ہی دیر میں پھر سے خون نکل آیا، خون دیکھتے ہی اُس نے زور زور سے رونا شروع کر دیا، ماں دوڑ کر اُس کے پاس آئی اور خون دیکھ کر پریشان ہوگئی، گود میں لے کر بڑے پیار سے اُسے چپ کرانے لگی پھر وہی روئی اور پھر وہی لال دوائی، مرہم پٹی کرنے تک وہ ماں کی مسحور کن خوشبو سونگھتا رہا، آخر کار خون رک گیا اور ماں اپنے کاموں میں لگ گئی اُس کا وجود جیسے کہیں چھومنتر ہوگیا۔
اُسے یقین ہوگیا کہ ماں مجھ سے نہیں میرے زخموں سے پیار کرتی ہے، اُس کے ناخنوں میں بے چینی بڑھتی جاتی مگر وہ ضبط کرکے بیٹھا رہتا، دھیرے دھیرے اُس کا زخم مندمل ہوگیا مگر وہ خوش نہیں تھا۔
پیشانی پر شاید کوئی پتھر لگا تھا، تھوڑی ہی دیر میں ساری پیشانی خونم خون ہوگئی، گھر پہنچنے تک اُس کی پیشانی کا زخم بہت نمایاں ہوگیا تھا، ماں اُسے دیکھتے ہی پریشان ہوگئی، فوراً لال دوائی لینے دوڑی اور بہت پیار سے اُس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا، اُس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو آ گئے، ماں کی بھینی بھینی مہک نے اُسے جذباتی کر دیا تھا، ماں نے اُس کا زخم صاف کیا پھر مرہم پٹی کر دی، وہ سوچ میں پڑ گیا کہ ماں کو صرف میرے زخموں سے ہی پیار ہے، آخر مجھ سے کیوں نہیں؟
دماغ نے دلیل دی کہ ماں کے پاس کسی کے لیے وقت ہی نہیں وہ صرف کام کرتی ہے تا کہ سب کی زندگی آسان ہو سکے مگر مجھے تو ماں کی خوشبو چاہیے دل نے ضد کی، دل اور دماغ کی کشمکش میں وہ ماں کی گود میں سر رکھ کر سو گیا۔
اب جب بھی اُسے ماں کی خوشبو یاد آتی وہ یا تو کوئی زخم لگا لیتا یا کسی پرانے زخم کو کریدکر ہرا کر لیتا تھا کیونکہ ماں کو اُس سے نہیں اُ س کے زخموں سے پیار تھا۔
زندگی کی گاڑی یونہی دھیرے دھیرے آگے بڑھتی رہی، زندگی کے مختلف مدارج عبور کرتے ہوئے وہ جوانی تک آ گیا، ماں کا وجود اب تھکا تھکا سا رہتا تھا، چہرے پر ایک بیزاری لیے وہ گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی، جب کبھی اُسے ماں کی بھینی بھینی خوشبو یاد آتی اُس کے ناخنوں کی بے چینی بڑھ جاتی، دل چاہتا کہ سارے زخم اُدھیڑ ڈالے تاکہ ماں اُس کے زخموں پر پھاہے رکھتی رہے اور وہ ماں کی مسحور کن خوشبو میں کھو جائے۔
زندگی بھر اُس نے ماں کو خدمت کرتے دیکھا، اُسے لگا خدمت کرنا شاید صرف ماں ہی کا فرض ہے، نہیں ایسا نہیں ہے، مجھے بھی ماں کا خیال رکھنا چاہیے مگر ماں نے کبھی مجھ سے پانی تک نہیں مانگا تھا، وہ کبھی کچھ کہتی ہی نہیں تھی بس سر جھکائے اپنے کاموں میں لگی رہتی، وہ اپنے ضمیر کو مختلف توجیہات دے کر مطمئن کرنے کی کوشش میں لگا رہتا مگر ضمیر اُسے بے چین کیے دے رہا تھا۔
ماں کی کھانسی ٹھیک ہی نہیں ہو رہی تھی، ابا نے گاؤں کے حکیم سے دوا بھی لے لی تھی مگر اماں تو دن بہ دن ڈھلتی ہی جارہی تھی اور پھر ایک دن ماں گھر کے صحن میں بے ہوش ہو کر گر پڑی، وہ دوڑ کر ماں کے پاس آیا، ماں کو اُٹھا کر کمرے میں لے آیا، ماں کے وجود سے وہی بھینی بھینی خوشبو اُٹھ رہی تھی ماں تجھے کیا ہوگیا ہے؟ اُس نے بکھرے بکھرے گھر پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
جب ماں کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تو سارے بہن بھائی ماں سے ملنے آنے لگے، ماں تو جیسے کھل اُٹھی، سب کو مسکرا مسکرا کر دیکھتی رہتی، ماں کو مسکراتا دیکھ کر اُ س کے ناخنوں کی بے چینی بڑھ جاتی، جی چاہتا تھا کہ سارے جسم پر ناخنوں سے زخم ڈال دے۔
ماں کی طبیعت میں کچھ بہتری آرہی تھی، پھر آہستہ آہستہ سب بہن بھائی اپنے اپنے کام دھندوں سے لگ گئے، ماں کو تو جیسے چپ ہی لگ گئی تھی، تھکے تھکے وجود سے وہ گھر کے کام کرتی اور رات گئے تک آنگن میں چارپائی پر تاروں کو تکا کرتی۔
ایک دن ہمت کرکے اُس نے ماں سے پوچھ ہی لیا: ماں کسے ڈھونڈ رہی ہو؟
ماں نے غور سے اُ س کی جانب دیکھتے ہو ئے کہا: پتر! ڈھونڈ رہی ہوں کہ اچھا وقت کہاں کھو گیا؟
یہ اچھا وقت کیا ہوتا ہے ماں؟ اُس نے پھر پوچھا
جب سارے ایک ہی چھتری کے نیچے ہوتے ہیں۔
ماں نے جواب دیا اور تھکن سے آنکھیں موند لیں جیسے بات کرنے کی ہمت ہی نہ ہو، وہ چپ چاپ واپس اپنے کمرے میں لوٹ آیا۔
اُس رات کی کوئی صبح نہ ہو سکی کیونکہ ماں نیند میں ہی اِس دارِفانی سے کوچ کر گئی، کوئی خدمت لیے بغیر سب کی خدمت کرتے کرتے شاید تھک گئی تھی، سارے خاندان والے، محلے پڑوس کے لوگ جمع ہو گئے، کفن دفن کا انتظام ہونے لگا، وہ تنہا ایک کونے میں چپ چاپ کھڑا رہا، خالی خالی آنکھوں سے ماں کو دیکھے گیا جو اب صرف چند لمحوں کی مہمان تھی، وہی بھینی بھینی خوشبو جو ماں کی شخصیت کا حصہ تھی، وہی خوشبو اب اُس کا حصار کیے ہوئے تھی۔
ماں کو دفن کرکے جب وہ لوٹا تو اُس کا سارا بدن جیسے زخموں سے چور تھا اور ناخنوں کی بے چینی اپنے عروج پر تھی۔ جی چاہتا تھا کہ سارا جسم کھرچ کھرچ کر لہو لہان کر دے شاید کہ ماں پھر سے لوٹ آئے، زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے۔