صبح صادق کے دودھیا اجالے میں صوفی نے اپنے اپارٹمنٹ کی بالکونی سے اسے سڑک کی دوسری جانب ٹہلتے دیکھا، خوف کی ایک انجانی لہر صوفی کے رگ و پے میں سرایت کر گئی، "ارے یہ پھر یہیں گھوم رہا ہے!" یہ کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟"ایک پراسرار اجنبی جو اکثر ہاتھ میں سگار لئے خاموشی سے سڑک کی دوسری جانب گھوم رہا ہوتا۔ بار بار نظر اٹھا کر صوفی کی بالکونی کی طرف دیکھتا اور پھر غیر یقینی کے انداز میں سر ہلا ہلا کر کچھ سوچتا اور خاموشی سے کہیں غائب ہو جاتا۔ یہ کون اجنبی ہے؟ آخر یہ کس کی تلاش میں بھٹک رہا ہے؟ یہ وہ سوال تھا جس کا جواب صوفی کے پاس نہ تھا۔
صوفی کی شادی کو صرف دو سال ہی ہوئے تھے۔ یہ دو سال کسی دلنشیں خواب کی مانند حسین اور خوشگوار تھے۔ شادی کے بعد صوفی اپنے آبائی شہر سے دور اس نئے شہر میں آبسی تھی۔ صوفی کی اپنی چھوٹی سی جنّت، اس جنّت میں صرف وہ اور اسکا مجازی خدا بستے تھے۔ کتنی خوش نصیب تھی وہ! صوفی نے زندگی کو بلکل نئے سرے سے شروع کیا تھا۔ زندگی جیسے ایک کورا کاغذ تھی جس پر سب کچھ صوفی کو ہی لکھنا تھا۔ اس کورے کاغذ کی شفافیت نے صوفی میں موجود ایک تخلیق کار ذہن کو چیلنج کر دیا۔ یہ چھوٹا سا گھر، اس میں موجود ہر چیز ٹکسال سے نکلے ہوئے نئے نکور سکوں کی طرح چمک رہی تھی۔
صوفی کا شوہر خرّم صبح سویرے آفس کے لئے نکل جاتا، صوفی سارا دن گھر کے چھوٹے چھوٹے خوبصورت کاموں میں مصروف رہتی۔ صوفی کو گھر سجانے اور سنوارنے کا جنون ہو چلا تھا۔ صوفی کو یوں لگتا جیسے وہ کسی فن پارے پر کام کر رہی ہو جو دن بدن خوب سے خوب تر ہوتا جا رہا تھا۔ اس اپارٹمنٹ کے لاؤنج کے ساتھ ایک خوبصورت ہوا دار بالکونی تھی جہاں طلوع آفتاب کا حسین منظر زندگی کو نئے ولولے اور امنگ سے گزارنے کی ترغیب دیتا تھا۔ گھر کو سجانے اور سنوارنے کا کام جب ایک حد تک مکمل ہوگیا تو صوفی نے سوچا کہ بالکونی پر بھی کچھ توجہ دی جائے۔ بہت سوچ بچار کے بعد صوفی قریبی نرسری سے کچھ موسمی پھولوں کے پودے اور گملے خرید لائی۔ بالکونی میں دو چھوٹی کرسیاں اور ایک تپائی رکھ دی، ایک کونے میں چائنیز گھنٹیاں ٹانگ دیں، تواتر سے آتی مدھر آواز ماحول میں ایک سحر پیدا کرتی۔
صوفی کے ہاتھوں میں جادو تھا۔ وہ جس پودے کو چھوتی، وہ پودا صوفی کے لمس سے نکھر نکھر جاتا۔ کچھ گملے صوفی نے دیوار سے اس طرح لٹکائے تھے کہ ان میں موجود سدا بہار بیلیں لہلہاتی ہوئی نیچے تک لٹک رہی تھیں۔ صوفی روز علی الصبح ہر پودے کو ایک انہماک سے توجہ دیتی، ایک ایک پھول اور پتی اپنی جگہ پر تھا۔ ایک کونے میں ہلکے کپاسی رنگ کے پرم روز (prim rose) کی بیل تھی۔ گلابی جاڑے کی اس رت میں چھوٹے چھوٹے گلاب یوں بہار دکھا رہے تھے جیسے کسی نے بڑی سلیقہ مندی سے پھولوں کو ہریالی میں ٹانک دیا ہو۔ سفید اور بنفشی گلِ داؤدی کی کومل کلیوں نے پھول بن کر آنکھیں کھولنا شروع کردیا تھا۔ ایک نازک ستون پر عشقِ پیچاں کی بیل اوپر کی جانب چڑھ رہی تھی۔
سرخ سرخ پھول صبح کی سردی میں انگاروں کی طرح دہکتے۔ منڈیر پر صوفی نے فرن (ferns) کے بھرے بھرے گملے رکھ دیئے تھے، ان گملوں کی وجہ سے پوری بالکونی میں ایک خنک سا احساس جاگزیں رہتا۔ گیندے کی پنیریاں بھی سر اٹھا رہی تھیں۔ صوفی نے اپنے بالکونی گارڈن کا ایک ناقدانہ جائزہ لیا۔ صوفی کی جنت کا یہ سب سے حسین گوشہ تھا۔ صوفی بجا طور پر اپنے کام پر فخر کر سکتی تھی۔ تخیل کو پرواز ملی تو صوفی نے سوچا کہ خرم گھر آئیں گے تو ان کے ساتھ یہاں بیٹھ کر چائے پی جائے گی۔ کتنا مسرور کن خیال تھا۔ صوفی بے خیالی میں اپنے تصور پر مسکرانے لگی۔
اور پھر وہ اجنبی صوفی کو اپنے اپارٹمنٹ بلڈنگ کے نیچے نظر آنے لگا۔ پہلے پہل تو صوفی نے اس کی طرف بلکل دھیان نہیں دیا۔ دھیرے دھیرے صوفی نے محسوس کیا کہ یہ جو کوئی بھی ہے صرف اس کی بالکونی کی طرف ہی دیکھتا رہتا ہے۔ خوف کی ایک سنگین لہر صوفی کو ریڑھ کی ہڈی میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی۔ "یہ کون ہے؟" اس اجنبی شہر میں صوفی کسی کو نہیں جانتی تھی۔ کچھ دنوں کے لئے صوفی نے بالکونی میں بار بار جانا ترک کردیا۔ وہ اجنبی بھی شاید غائب ہوگیا ہوگا۔ صوفی نے اپنے آپ کو سرزنش کیا۔ "میں بھی وہمی ہوگئی ہوں۔ مسافر ہوگا۔ کسی کو ڈھونڈ رہا ہوگا!"۔
ایک شام۔ صوفی نے خرم سے فرمائش کی "چلیں بالکونی میں چائے پیتے ہیں" خرم نے انکار کردیا، خرم کے انکار کو صوفی خاطر میں نہ لائی اور چھوٹے بچوں کی طرح ضد کرنے لگی۔ "چلیں نا!" خرم نے ہذیانی انداز میں چیختے ہوئے کہا "نہیں۔ کہہ دیا نا نہیں !"۔ صوفی سہم سی گئی۔ اس کی حیران حیران۔ آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو آگئے۔ آنسو دیکھ کر خرم۔ پریشان ہو گئے۔ بڑی لجاجت سے صوفی سے معافی مانگی۔ "یار مجھے ٹھنڈ لگ جاتی ہے نا۔ " باہر ہوا کچھ سرد تو تھی۔ صوفی نے خرم سے ضد نہ کی۔ مگر اسے افسوس ضرور تھا۔ کاش خرم میرے محنت سے لگائے ہوئے اس کنج کو ایک بار ہی محبت سے دیکھ لیتے۔
ایک شام صوفی اپنے گارڈن میں کچھ گملوں پر کام کررہی تھی کہ وہ پراسرار اجنبی اسے اچانک ہی نظر آگیا۔ صوفی کی تو جیسے سانس ہی رک گئی۔ وہ جلدی سے فرن کے گملوں کے پیچھے چھپ گئی، "ارے یہ پھر آگیا! " وہ جو کوئی بھی تھا صوفی کو بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔ چال ڈھال سے تو کوئی پڑھا لکھا انسان لگتا تھا۔ صوفی نے بارہا سوچا کہ خرم کو اس اجنبی کے بارے میں بتائے مگر ہر بار صرف سوچ کر ہی رہ گئی۔ صوفی اپنی خوبصورت شام صرف ایک اجنبی کی وجہ سے برباد نہیں کرنا چاہتی تھی۔ خرم گھر آتے تو ان کے ہاتھوں میں صوفی کے لئے گجرے ہوتے، ان گجروں کی مہک میں صوفی ساری باتیں بھول جاتی۔ صوفی کی جنت سچ مچ میں بہت خوبصورت تھی۔
ایک شام ہلکی ہلکی بارش کے بعد ہر چیز نکھری نکھری تھی صوفی نے چاہا کہ ایک نظر اپنے پودوں پر ڈال لی جائے۔ رنگوں کی اس سمفنی میں صوفی خوشی سے نہال ہوگئی دھیرے دھیرے گنگناتے ہوئے صوفی نے ایک پرم روز توڑا اور اپنے بالوں میں لگانے ہی والی تھی اچانک پھر وہی اجنبی سڑک کے اس پار نظر آ گیا۔ اس بار وہ اپنے ہاتھوں سے کچھ اشارہ کر رہا تھا۔ صوفی نے غور کیا تو وہ ہاتھ کے اشارے سے اسے اپارٹمنٹ میں واپس جانے کو کہہ رہا تھا۔ صوفی کو محسوس ہوا کہ جیسے وہ کوئی زہر آلود تیر چلا رہا ہو جو شاید اس کے دل میں پیوست ہوجائے گا۔ صوفی الٹے قدموں لاؤنج کی طرف بھاگی اور لاؤنج میں کھڑے خرم سے بری طرح ٹکرا گئی۔ " کیا ہوا؟" خرم بھی اس اچانک افتاد پر گھبرا گئے۔ "ک ک کچھ نہیں!" صوفی صرف ہکلا کر رہ گئی۔ صوفی کی نظر خرم کے ہاتھوں میں موجود پھولوں کے گجروں پر ٹک گئی۔ اور پھر صوفی اپنی پناہ اور سکون کے سمندر میں اتر گئی۔ صوفی نے اپنی جنت کی طرف نگاہ کی اور سوچا کہ صوفی کی جنت ہی زندگی کا سب سے بڑا سچ ہے۔ باقی سب بیکار کی باتیں ہیں۔
ایک دن شہر میں موسم بڑا سہانا ہو رہا تھا۔ بادل جیسے امڈ امڈ کے چھا رہے تھے۔ صوفی نے سوچا کہ سامنے عمارت میں موجود مارکیٹ کا چکر لگایا جائے، شاید کوئی پسند کی چیز مل جائے۔ صوفی نے موسم کی مناسبت سے ایک شوخ رنگ کا لباس پہنا، ہاتھ میں پھولدار چھتری لی اور باہر نکل آئی۔ ہلکی ہلکی پھوار میں شہریوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے، صوفی نے راہگیروں میں شامل ہو کر چہل قدمی شروع کر دی۔ موڑ پر رک کر صوفی نے سڑک کراس کی اور دوسری طرف نکل آئی۔ صوفی دوسری جانب پہنچ ہی رہی تھی کہ اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ "ہائے اللہ یہ کون!" وہی مشکوک اجنبی اس کے بلکل سامنے کھڑا تھا، قریب تھا کہ صوفی کوئی فرار اختیار کرتی، وہ اجنبی بڑی عجلت میں اس کی جانب لپکا اور کرخت لہجے میں صوفی کا نام پکارا"
صوفی مجھے تم سے صرف ایک ضروری بات کرنی ہے، آئیندہ تم مجھے کبھی اپنے گھر کے سامنے نہ پاؤ گی!"۔ صوفی نے حیران ہو کر اس اجنبی کی طرف بے یقینی سے دیکھا۔ اس اجنبی شہر میں صوفی کو کوئی نہیں جانتا تھا پھر یہ کون ہے جو صوفی کو اس کے نام سے پکار رہا ہے! صوفی کے لاشعور نے صوفی کو انجانے خطرے سے آگاہ کیا۔ صوفی نے حتمی فیصلہ کیا کہ یہ اجنبی جو کچھ بھی کہنا چاہ رہاہے، مجھے نہیں سننا، صوفی نے پلٹ کر اپنی جنت کی طرف قدم بڑھائے۔ اس اجنبی نے صوفی کا ارادہ بھانپ کر لپک کر صوفی کا بازو بڑی بے دردی سے پکڑ لیا اور ایک اضطراب کے عالم میں اپنی بات دہرائی" میں نے کہا نا آج کے بعد میں تمہیں کبھی نظر نہیں آؤں گا۔ میں صرف اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرکے اپنی دنیا میں گم ہونا چاہتا ہوں"۔
صوفی نے بے بسی سے اس اجنبی کی جانب دیکھا وہ اجنبی بڑی رکھائی سے گویا ہوا "دیکھو صوفی میں ایک نفسیاتی ڈاکٹر ہوں، تمھارا شوہر میرا مریض ہے، خرم ہر لمحہ تمہیں جان سے مارنے کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ تم بالکونی میں صرف کسی کو اشارے کنایےکرنے جاتی ہو، اسکا یہ وہم اب پاگل پن کی حد تک بڑھ چکا ہے مجھے ڈر ہے کہ اگر تم نے بالکونی میں نکلنا بند نہ کیا تو وہ کسی دن تمہیں اضطراری کیفیت میں اوپر سے دھکا دے دےگا!"۔
الفاظ کیا تھے۔ گرم گرم سیسہ تھا جو صوفی کے کانوں میں ٹپک گیا تھا۔ صوفی کو محسوس ہوا جیسے سارا شہر یکدم ہی ویران ہوگیا ہو۔ ہر طرف گرم ہوا کے بگولے اڑ رہے تھے۔ صوفی نے خشک آنکھوں سے اس اجنبی کو ایسے دیکھا جیسے وہ کوئی بھوت ہو اور کوہ قاف سے صرف صوفی کی جنت برباد کرنے آیا ہو۔ "مجھے بہت افسوس ہے مگر تمہاری جان بچانا شاید میرا فرض ہے" اجنبی نے یہ جملہ نظریں جھکا کر کہا۔ "اپنا خیال رکھنا!" صوفی کو ہوا کی بازگشت سنائی دی، اگلے لمحے وہ کہیں بھیڑ میں گم ہوچکا تھا۔
اجنبی شہر میں بادل گھر گھر کر آرہے تھے۔ کسی بوجھل بادل سے ایک موٹی سی بوند صوفی کے رخسار پر گری اور ہر طرف جل تھل ہوگیا۔ صوفی کتنی ہی دیر ایک جگہ کھڑی رہی۔ قدم جیسے جم گئے ہوں۔ "کہاں جانا ہے بی بی جی؟" ایک راہگیر نے صوفی کی طرف جملہ پھینکا۔ صوفی نے بوجھل قدموں سے واپسی کا راستہ لیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ صوفی کی جنت کس طرف ہے؟ چند قدموں کا فاصلہ جیسے پاتال کی مسافت ہو۔ قدم کہیں رکھتی اور پڑتے کہیں۔ صوفی دل سے چاہتی تھی کہ یہ سب ایک برا خواب ہو اور اس کی آنکھ کھل جائے۔ لاکھ مکرنے پر بھی حقیقت اپنی کریہہ شکل کے ساتھ سامنے موجود تھی۔ آس پاس کے لوگ سایوں کی طرح لگ رہے تھے۔ شاید وہ کسی دوسری دنیا میں آگئی تھی جہاں کوئی اور ہی مخلوق رہتی تھی اور صوفی ان سب کے درمیان بالکل اکیلی تھی۔ ایک خوبصورت خواب تھا جو ٹوٹ چکا تھا۔
گھر میں داخل ہوئی تو اس خواب کی کرچیاں ہر کونے میں بکھری پڑی تھیں، جیسے کرسٹل کا فانوس اچانک ہی چھت سے ٹوٹ کر گر پڑے۔ صوفی کی سانس بے ترتیب اور ذہن دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔ وہ کسی نتیجے پر پہنچنا چاہتی تھی، کوئی راستہ سجھائی نہ دے رہا تھا۔ صوفی کو محبت میں ساون کے اندھے کی طرح صرف ہریالی ہی نظر آئی، خرم کے ہاتھوں میں گجروں کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا۔ صوفی کے بار بار اصرار کرنے پر بھی خرم کبھی بالکونی میں اس کے ساتھ چائے پینے پر رضامند نہ ہوئے۔ وہ گوشہ جو صوفی نے بہت چاہت سے سجایا تھا، خرم نے کبھی اس پر نظر ڈالنا گوارا نہ کیا۔ بہت سے سوالوں کے جوابات خود بخود ملنا شروع ہوگئے۔ جزبات کے اس مد وجزر میں صوفی نے اپنے آپ سے ایک انوکھا سوال کیا۔ "کیا میں زندگی بھر اس جھوٹ کا بوجھ اپنے کندھوں پر ڈھو سکتی ہوں؟" جزبات کی طغیانی میں صوفی کو کوئی کنارہ مل نہیں پا رہا تھا۔ شدید کرب سے صوفی کو چکر آنے لگے۔
اور پھر اچانک اپارٹمنٹ کے دروازے میں چابی گھومنے کی آواز آئی۔ خرم کے ہاتھوں میں مہکتے ہوئے گجرے تھے، خرم نے قدرے حیران ہو کر پوچھا "تم اندھیرے میں کیا کر رہی ہو؟ لائٹ کیوں بند ہے؟"۔ صوفی کو اندھیرے میں صرف مہکتے ہوئے پھولوں کے گجرے نظر آئے۔ یہ مہک ایک دلنشین شام کا پیغام سنا رہی تھی۔ صوفی نے اپنی جنت پر آخری نظر ڈالی اور تیزی سے بالکونی کی طرف بڑھی۔ اس سے پہلے کہ خرم کچھ سمجھتے صوفی عشقِ پیچاں کی بیل پکڑ کر بلندی سے چھلانگ لگا چکی تھی۔